تمام سیاسی جماعتیں مذاکرات کے حوالے سے کل تک اپنی پوزیشن واضح کریں، سپریم کورٹ

آج سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے اہم ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آئین کے مطابق 90 دن کے اندر انتخابات کا انعقاد لازم ہے اور عدالت نے اس عمل کو تیز کرنے کے لیے روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے بدھ کے روز وزارت دفاع کی جانب سے ملک بھر میں ایک ہی وقت انتخابات کرانے کی درخواست کو ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے ، سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں تاخیر سے متعلق معاملے کے حل کے لیے نوٹسز جاری کردیئے ہیں۔ سپریم کورٹ نے تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے نمائندوں کے ساتھ کل طلب کرلیا ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان (سی جے پی) عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے وزارت دفاع اور اسلام آباد کے شہری فدا محمد خان کی جانب سے سارے ملک میں ایک ہی وقت میں انتخابات کرانے کی درخواستوں پر سماعت کی۔

درخواستوں میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ قومی اسمبلی ، سندھ اور بلوچستان کی صوبائی حکومتوں کی مدت پوری ہونے کے بعد تمام حکومتوں میں ایک ساتھ انتخابات کرائے جائیں۔

یہ بھی پڑھیے

ریاست مخالف پروپیگنڈا کے الزام میں مخدوم شہاب الدین کو ایف آئی اے کا نوٹس

آئین پاکستان میں سوموٹو کا کہیں ذکر نہیں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

وزارت دفاع کی جانب سے سپریم کورٹ میں ایک روز قبل جمع کرائی گئی درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ عدالت عظمیٰ اپنا 4 اپریل کا حکم واپس لے لے ، جو عدالت نے 14 مئی کو پنجاب اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے سے متعلق دیا تھا۔

درخواست میں عدالت عظمیٰ سے استدعا کی گئی ہے کہ قومی اور تمام صوبائی اسمبلیوں کے عام انتخابات ایک ہی تاریخ کو کرانے کا حکم جاری کیا جائے۔

آج سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے اہم ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آئین کے مطابق 90 دن کے اندر انتخابات کا انعقاد لازم ہے اور عدالت نے اس عمل کو تیز کرنے کے لیے روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

مزید برآں، چیف جسٹس بندیال نے نگراں حکومتوں کے معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد 90 دن سے زیادہ اقتدار میں نہیں رہ سکتے۔ نگراں حکومتوں کی 90 دن کی مدت سے تجاوز کرنے کا معاملہ بھی اٹھایا گیا۔

چیف جسٹس نے فنڈز کی فراہمی سے متعلق دوبارہ جواب طلب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ اگر سیاسی جماعتیں ایک موقف پر آجائیں تو عدالت گنجائش نکال سکتی ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ کیس بہت طویل ہوگیا ہے ، معاملہ بہت لمبا ہوتا جارہا ہے ، توقع ہے کہ حکومت اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے گی ، اگر حکومت نے سپریم کورٹ کے احکامات کو تسلیم نہ کیا تو معاملے کے نتائج غیرمعمولی ہوسکتے ہیں، فی الحال غیرمعمولی نتائج پر نہیں جانا چاہتے۔ حکومت کو عدالتی احکامات پہنچا دیئے جائیں۔

آج کی سماعت کی اہم بات یہ تھی کہ آج کی سماعت دو حصوں پر مشتمل تھی۔ پہلے حصہ سپریم کورٹ کا 4 اپریل کا فیصلہ تھا جس میں 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کرانے کا حکم دیا گیا تھا۔

سپریم کورٹ نے وزارت خزانہ کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ کو مسترد کردیا ، جبکہ الیکشن کمیشن کی رپورٹ پر ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے اپنی تمام تر پروسیڈنگ میں کہا تھا کہ ہم انتخابات کے لیے تیار ہیں ، لیکن کل جو نئی رپورٹ جمع کرائی گئی ، وہ ایک غیرمعمولی رپورٹ ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اب انتخابات ممکن نہیں ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں وزارت دفاع ، ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی ایم او کی جانب سے جو بریفنگ دی گئی ہے اس میں جو بھی جو معلومات دی گئی ہیں وہ اس سے پہلے ہمیں نہیں بتائی گئی ہیں۔ تمام سماعت کے دوران کبھی ہمیں بائیکاٹ کا سامنا ، کبھی چار تین اور کبھی تین دو کے بیانات کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن کسی نے بھی ہمیں وہ معلومات فراہم نہیں کی تھیں جو اب دی گئی ہیں۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اب ایک نئی درخواست ایک شہری کی جانب سے دائر کی گئی ہے جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کرائے جائیں، درخواست میں تمام سیاسی جماعتوں کو فریق بنایا گیا ہے۔

عدالت کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل کی جانب سے جو تفصیلات بتائی گئیں ان کے مطابق حکومت اور پی ٹی آئی اب مذاکرات کی جانب جارہے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ ایک کمیٹی پی ڈی ایم کی جانب سے بنائی گئی ہے جبکہ ایک کمیٹی تحریک انصاف کی جانب سے تشکیل دی گئی ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے بھی مذاکراتی کمیٹیاں تشکیل دے دی ہیں۔ اور امیر جماعت اسلامی سراج الحق بھی اپنے طور پر مختلف سیاسی جماعتوں سے رابطے کررہے ہیں۔

متعلقہ تحاریر