افغان وزیر خارجہ متقی 4 روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچ گئے

جمعرات کے روز ترجمان دفتر خارجہ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ افغان قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی ایک اعلیٰ سطح وفد کے ہمراہ پاکستان پہنچ رہے ہیں۔

افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی سیکیورٹی، اقتصادی اور تجارتی امور پر بات چیت کے لیے چار روزہ دورے پر جمعہ کے روز اسلام آباد پہنچ گئے۔

کابل سے روانگی سے قبل افغان وزارت خارجہ کے نائب ترجمان حافظ ضیاء توکل نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا تھا کہ وزیر خارجہ امیر خان متقی ایک "جامع سیاسی اور تجارتی وفد” کی قیادت کریں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ افغان حکومت سیاسی، اقتصادی تعلقات، علاقائی سلامتی اور اقتصادی راہداری پر وسیع پیمانے پر دو طرفہ مذاکرات کرنا چاہتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے 

اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان اور بشریٰ بی بی کو موصول نیب نوٹسز کو غیرقانونی قرار دے دیا

وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کا بھارتی سرزمین پر کشمیر پر پاکستانی موقف کا کھلا  پرچار

واضح رہے کہ جمعرات کے روز ترجمان دفتر خارجہ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ افغان قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی ایک اعلیٰ سطح وفد کے ہمراہ پاکستان پہنچ رہے ہیں، وفد میں قائم مقام وزیر تجارت و صنعت حاجی نورالدین عزیزی اور افغان وزارت خارجہ، ٹرانسپورٹ اور تجارت کے سینئر حکام شامل ہیں۔

ترجمان دفتر خارجہ نے اپنے بیان میں مزید کہا تھا کہ دورے کے دوران پاکستان اور افغانستان کے درمیان سیاسی، اقتصادی، تجارتی، رابطوں، امن و سلامتی اور تعلیم کے شعبوں میں دو طرفہ تعلقات کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیں گے۔

دو طرفہ ملاقاتوں کے علاوہ قائم مقام افغان وزیر خارجہ 6 مئی کو 5ویں چین-پاکستان-افغانستان سہ فریقی وزرائے خارجہ مذاکرات میں بھی شرکت کریں گے۔

چین کے اسٹیٹ کونسلر اور وزیر خارجہ کن گینگ سہ فریقی وزرائے خارجہ مذاکرات میں بھی شرکت کےلیے آج اسلام آباد پہنچے تھے۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پیغام شیئر کرتے ہوئے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے تصدیق کی کہ ان کے افغان اور چینی ہم منصبوں کے ساتھ کل (بروز ہفتہ) دو طرفہ اور سہ فریقی مذاکرات ہوں گی۔

2017 میں اپنے آغاز کے بعد سے، سہ فریقی ڈائیلاگ میکانزم نے شاندار نتائج حاصل کیے ہیں اور یہ تینوں ممالک کے لیے افہام و تفہیم کو بڑھانے اور باہمی اعتماد اور تعاون کو گہرا کرنے کے لیے ایک اہم پلیٹ فارم بن گیا ہے۔

اس بار یہ بات چیت ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب افغانستان سے سرحد پار سے حملوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور ایک اندازے کے مطابق 2022 میں دہشت گردوں کی جانب سے افغان سرزمین استعمال کرتے ہوئے 150 حملے کیے جا چکے ہیں۔

متعلقہ تحاریر