سیاسی جماعتیں پاکستان مخالف نہیں اور نہ ہی غداروں پر مشتمل ہیں، صدرعارف علوی   

صدر مملکت عارف علوی کا کہنا ہے کہ  ملکی  تاریخ میں ہر طرف سے زیادتیاں ہوئیں مگر پاکستان کی کوئی بھی سیاسی جماعت پاکستان مخالف نہیں اور نہ ہی غدار پر مشتمل ہے، تمام اسٹیک ہولڈرز پر زور دیا ہے کہ ایک بار گہری سانس لیں دوبارہ سوچیں کہ انا یا عاجزی اور حکمت، کس کو غالب ہونا چاہئے؟

صدر مملکت ڈاکٹرعارف علوی کا ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال  کے تناظر میں کہنا ہے کہ انا یا عاجزی اور حکمت، کس کو  غالب ہونا چاہئے؟۔ ہم یہاں سے کہاں جائیں؟ میں سب سے گزارش کرتا ہوں کہ گہری سانس لیں۔

صدر ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا ہے کہ ملک کی غیر مستحکم سیاسی صورتحال کے تناظر میں  سب  پرسکون ہوکر گہری سانس لیں اور سوچیں انا یا عاجزی اور حکمت ، کس کو  غالب ہونا چاہئے؟۔ہم یہاں سے جائیں تو کہاں جائیں۔

یہ بھی پڑھیے

صدر عارف علوی کا سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری پر رنج و غم کا اظہار

انگریزی اخبار ٹریبیون میں شائع صدر مملکت عارف علوی کے ایک کالم میں کہا گیا کہ  پاکستان کی تاریخ میں ہر طرف سے زیادتیاں ہوئیں مگر ملک کی کوئی بھی سیاسی جماعت پاکستان مخالف نہیں اور نہ ہی غدار پر مشتمل ہے ۔

صدر عارف علوی نے کہا کہ ایوب خان کی جانب سے اگرتلہ سازش مجیب الرحمان کو غدار کہا گیاجبکہ انہیں اپوزیشن کے مطالبے پر 1969 کی گول میز کانفرنس میں  مجیب الرحمان کو نہیں بلایا گیا جس پر وہ ناکام ہوگئی تھی ۔

 انہوں نے کہا کہ حیدر آباد سازش کیس میں وزیراعظم ذولفقارعلی بھٹو نے نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی عائد کی اور ولی خان، بزنجو، عطاءاللہ مینگل، خیر بخش مری، نجم سیٹھی اور حبیب جالب  پر غداری کے مقدمات قائم کیے۔

عارف علوی نے کہا کہ ملک میں سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کو غدار قرار دینے کی طویل تاریخ ہے،1951میں راولپنڈی سازش کیس میں فیض احمد فیض،میجر جنرل اکبر خان، سجاد ظہیر،کیپٹن ظفر اللہ پوشی  کو گرفتار کیا  ۔

یہ بھی پڑھیے

صدر عارف علوی نے انتخابات ملتوی اور مارشل لاء کے خدشات کا اظہار کردیا

راولپنڈی سازش کیس میں سزائیں دینے کیلئے ایک خصوصی قانون پاس کیا گیااورسب کو سزائیں دی گئیں لیکن چارسال بعد سب کو رہا کیا گیا اور اپیل کورٹ نے ان پر لگے الزامات کو مکمل طور پر جھوٹا قرار دیا گیا ۔

صدر مملکت ڈالٹر عارف علوی نے  اپنے کالم میں اقرار کیا کہ وہ ذاتی طور  فیض احمد فیض ، میجر جنرل اکبر  خان ، کیپٹن ظفراللہ پوشی سمیت کسی بھی فوجی جوان اور سیاسی رہنما کے غدار ہونے کا تصور بھی نہیں کرسکتے ہیں۔

صدر نے کہا کہ ہم یہاں سے کہاں جائیں؟سب سے گزارش  ہے کہ گہری سانس لیں۔ جیسا کہ میں نے تجربے اور تاریخ دونوں سے سیکھا ہے اور بتاؤں گا کہ آج تک کوئی سیاسی جماعت پاکستان مخالف نہیں رہی  ہے ۔

انہوں نے کہا کہ تمام اسٹیک ہولڈرز پر زور دیا ہے کہ ایک بار گہری سانس لیں دوبارہ سوچیں۔ یہاں تک کہ میں نے ان میں سے بہت سے لوگوں کو ایڈم گرانٹ کی اسی عنوان کی ایک کتاب تحفے میں دی ہے ۔

صدر نے کہا کہ آج ایران اور سعودی عرب نے قابل ذکر امن معاہدہ کرلیا جوکہ سعودی اور ایرانی قیادت کی کامیابی ہے اور اس میں ہمارے قریبی دوست چین کا کردار انتہائی مثبت رہا ،یہ تاریخ میں لکھا جائے گا ۔

یہ بھی پڑھیے

غداری کے قانون کو خلاف آئین قرار دینے پر بھارت میں لاہور ہائیکورٹ کے چرچے

انہوں نے سوال اٹھایا کہ "کیا ہم اپنی قیادت میں ایسی ہی عظمت پاسکتے ہیں؟ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ اسٹیبلشمنٹ سمیت بہت سے لوگ ہیں مگر روزمرہ کے واقعات انہیں خطرناک حد تک پہنچا دیتے ہیں ۔

اپنے کالم میں صدر مملکت عارف علوی نے اپنے والد کو بھی یاد کیا۔انہوں نے لکھا کہ میرے والد  مسلم لیگ  نینی تال کے صدر تھے جنہیں تقسیم کے فوراً بعد گرفتار کرلیا گیا تھا تاہم جواہر لعل نہرو کی وجہ سے رہائی ملی ۔

عارف علوی نے اپنے کالم میں لکھا کہ تین سال کی عمر میں پیرادائز سمینا کے قریب احتجاج ہورہا تھا کہ اس دوران  فائرنگ ہوئی اور ایک لاش گری جبکہ پولیس والے نے میرے والد کو گھر کے اندر جانے کا کہا۔

متعلقہ تحاریر