خدیجہ شاہ کی حالت بہت خراب ہے، اہلخانہ کا خط

بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کمیشن کا کہنا ہے کہ سویلین کا کسی صورت ملٹری ٹرائل نہیں ہونا چاہیے۔

لاہور میں کور کمانڈر ہاؤس میں توڑ پھوڑ اور آگ لگانے واقعے میں مبینہ طور پر ملوث ملزمہ اور ڈریس ڈیزائنر خدیجہ شاہ کو 24 مئی کو گرفتار کیا گیا تھا ، جبکہ آج انہیں عدالت کے سامنے پیش کیا جانا تھا ، تاہم انہیں عدالت کے سامنے پیش نہیں کیا گیا ، جس پر خدیجہ شاہ کے اہل خانہ نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے ، جبکہ دوسری جانب ہیومن رائٹس واچ کمیشن نے مطالبہ کیا ہے کہ 9 مئی کے واقعات میں ملوث سویلینز کے خلاف ملٹری کورٹ ٹرائل نہیں ہونا چاہیے۔

9 مئی کے پرتشدد واقعات کے بعد گرفتار ہونے والی فیشن ڈیزائنر اور پی ٹی آئی کی کارکن خدیجہ شاہ کی رہائی کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر دی گئی۔ تاہم آج نہیں عدالت کے سامنے پیش نہیں کیا گیا۔ جس پر خدیجہ شاہ کے اہل خانہ نے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ایک خط لکھ کر سوشل میڈیا پر شیئر کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے 

قوم کے پیسے پر غبن کرنے والوں کے خلاف ’زیرو ٹالرینس‘ کی پالیسی اپنائی جائے گی، عرفان قادر

بین الاقوامی جریدے رائٹرز کی رپورٹ مہرین زہرہ ملک اپنے ٹوئٹر پر اہل خانہ کا خط شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ "خدیجہ شاہ کو 24 مئی کو عدالت میں پیش کیے جانے کے بعد سے، کوٹ لکھپت جیل میں رکھا گیا ہے، ان کے اہل خانہ یا وکیل تک کو ان تک رسائی نہیں دی جارہی۔ انہیں آج عدالت میں پیش کیا جانا تھا لیکن پیش نہیں کیا گیا۔”

دوسری جانب بین الاقوامی تنظیم "ہیومن رائٹس واچ کمیشن” نے 9 مئی کو عمران خان کی گرفتاری کے بعد پاکستان میں پیش آنے والے واقعات پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔ تنظیم نے اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے کہ سویلین لوگوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلائے جائیں گے۔

ہیومن رائٹس واچ کمیشن نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر 9 اور 10 مئی کے واقعات میں ملوث افراد کے مقدمات فوجی عدالتوں سے نکال کر سویلین عدالتوں میں منتقل کریں۔ کمیشن کا کہنا ہے کہ تشدد پر قائم ہونے والے مقدمات منصفانہ ٹرائل کے حقوق کو برقرار رکھا جائے۔

کمیشن کے حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان پولیس نے 33 سویلین مشتبہ افراد کو فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے لیے فوج کے حوالے کر دیا ہے۔ مشتبہ افراد پر حساس دفاعی تنصیبات پر حملہ کرنے اور اہم سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے یا چوری کرنے کے الزامات ہیں۔

کمیشن نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ پاکستان آرمی ایکٹ (PAA)  1952 ، اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کو صرف مخصوص حالات میں مقدمہ چلانے کی اجازت دیتا ہے، اگر وہ بغاوت پر اکسانا، جاسوسی کرنا، اور "ممنوعہ” مقامات کی تصاویر لینے میں ملوث ہوں۔

متعلقہ تحاریر