ارشد شریف قتل کیس: سپریم کورٹ نے عمران خان سے جرح کی درخواست مسترد کر دی
عدالت عظمیٰ کا کہنا ہے کہ موجودہ سوموٹو محض تحقیقات میں سہولت فراہم کرنے کے لیے ہے، تفتیش کے طریقہ کار کی ہدایت نہیں کی گئی۔
سپریم کورٹ آف پاکستان (ایس سی پی) نے بدھ کے روز صحافی ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) ٹیم کی تفتیش سے متعلق درخواست کی سماعت کی۔
سپریم کورٹ نے ارشد شریف کی والدہ کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان اور دیگر لوگوں سے تفتیش کرنے کی درخواست کو ناقابل سماعت قرار دے دیا۔ واضح رہے کہ مذکورہ افراد نے اینکر پرسن کے قتل سے متعلق معلومات رکھنے کا دعویٰ کیا تھا۔
یہ درخواست مقتول صحافی کی والدہ کی جانب سے گزشتہ ہفتے دائر کی گئی تھی۔
عدالت عظمیٰ کی جانب سے کیس میں جاری کیے گئے تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ’’موجودہ ازخود نوٹس میں عدالت ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات میں محض سہولت فراہم کررہی ہے اور اس کے پاس تحقیقات کے لیے ہدایت دینے کا کوئی مینڈیٹ نہیں ہے۔‘‘
یہ بھی پڑھیے
لاہور ہائی کورٹ نے آئی جی پنجاب کو عمران ریاض کی بازیابی کے لیے مزید 10 دن کی مہلت دے دی
امریکا ، انسانی حقوق کی تنظیموں اور اتحادیوں نے فوجی عدالتوں کی مخالفت کردی
سپریم کورٹ کے یہ ریمارکس اس وقت سامنے آئے ہیں جب مقتول صحافی کی والدہ کی نمائندگی کرنے والے ماہر قانون شوکت عزیز صدیقی نے کچھ لوگوں کے نام بتائے تھے جن کے بارے میں ان کے مؤکلہ کو شبہ ہے کہ وہ ان کے بیٹے کے قتل میں ملوث سازشیوں اور مجرموں کے بارے میں جانتے ہیں۔
ایک روز قبل چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے پاکستانی صحافی ارشد شریف کے قتل کی وجوہات تلاش کرنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے نشاندہی کی تھی کہ تحقیقات میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
کینیا میں شریف کے قتل سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ منظر عام پر آنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ رپورٹ کے حوالے سے احتیاط کیوں نہیں اپنائی گئی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ جاننا ضروری ہے کہ ارشد شریف کینیا کیوں گئے؟ انہوں نے اس گاڑی کی جانچ کی ضرورت پر بھی زور دیا جس میں صحافی کو قتل کیا گیا تھا۔
مقتول صحافی کی والدہ کے وکیل نے پی ٹی آئی چیئرمین سمیت 5 افراد کو شامل تفتیش کرنے کی استدعا کی تھی۔
تاہم چیف جسٹس نے وکیل سے کہا کہ وہ اسپیشل جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) سے رجوع کریں۔
اٹارنی جنرل آف پاکستان (اے جی پی) منصور عثمان اعوان نے بینچ کو آگاہ کیا کہ اس معاملے پر خصوصی جے آئی ٹی کی رپورٹ میں تاخیر ہوئی تاہم انٹرپول سے رابطہ جاری ہے۔