جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو چیف جسٹس بننے سے قبل ہی امتحان کا سامنا

سپریم کورٹ نے 9 مئی کے واقعات میں ملوث مظاہرین کے خلاف فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کر دیں ہیں۔

چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے لیے 9 رکنی لارجر بینچ تشکیل دے دیا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی بینچ کے ممبر ہیں جن کا فوجی عدالتوں سے متعلق موقف پہلے ہی بڑا واضح ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس نے ترپ کی چال چلتے ہوئے قاضی فائز عیسیٰ کو چیف جسٹس بننے سے قبل ہی بڑے امتحان میں ڈال دیا ہے۔

سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین کی 9 نومبر میں گرفتاری کے بعد ملک بھر میں پرتشدد مظاہروں کے دوران فوجی تنصیبات کو نشانہ بنانے میں ملوث سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر آج سماعت مقرر کی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

پیپلز پارٹی نے لیطف کھوسہ کے بعد اعتزاز احسن کی بنیادی رکنیت معطل کردی

اگر گیم پلان صرف مجھے راستے سے ہٹانا ہے تو میں کہیں نہیں جارہا، عمران خان

بینچ

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 9 رکنی لارجر بینچ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک شامل ہیں۔ بینچ آج (جمعرات) صبح 11 بج کر 45 منٹ پر درخواستوں پر سماعت کریں گے۔

رجسٹرار آفس کی جانب سے اعتراضات اٹھائے جانے کے بعد عام شہریوں کے ٹرائل کے خلاف فوجی عدالتوں میں چار درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کر دی گئی ہیں۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اس کی منظوری دے دی ہے، اور یہ درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کر دی گئی ہیں۔

درخواستیں

معروف شخصیات جیسے حامد خان، اعتزاز احسن، پی ٹی آئی چیئرمین، اور جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ سمیت دیگر نے فوجی عدالتوں میں سویلین مقدمات کے ٹرائل کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کی ہیں۔ یہ درخواستیں اپنے تحفظات کو اجاگر کرتی ہیں اور اس معاملے پر سپریم کورٹ سے نظرثانی کا مطالبہ کرتی ہیں۔

حکومتی فیصلہ

واضح رہے کہ 9 مئی کو پیش آنے والے واقعات کے بعد حکومت نے فوجی تنصیبات کو نقصان پہنچانے والے مظاہرین  کے مقدمات فوجی عدالتوں میں منتقل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ حکومتی فیصلے کے تناظر اب بہت سے لوگوں کو ان خصوصی عدالتوں میں مقدمات کا سامنا ہے۔ صورتحال کی سنگینی سے نمٹنے کے لیے حکومت کے عزم کی عکاسی کرتا ہے۔

تبصرہ

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کل ہی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو چیف جسٹس بنانے کا نوٹی فیکیشن جاری ہوا۔ گوکہ وہ اپنے عہدے کا چارج 17 ستمبر کو سنبھالیں گے۔ لیکن کل ہی چیف جسٹس آف پاکستان نے فوجی عدالتوں کے خلاف دائر درخواستوں پر جو لارجز بینچ تشکیل دیا اس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو شامل کرلیا گیا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے صورتحال بڑی دلچسپ ہے ایک تو یہ کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا فوجی عدالتوں سے متعلق موقف بڑا واضح ہے اور دوسرا یہ کہ فوجی عدالتوں کے خلاف دائر درخواستوں میں ایک درخواست سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی بھی ہے ، جن کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے دیرینہ تعلقات ہیں۔ اب سارے معاملے کا مطلب کیا ہے؟ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس قاجی فائز عیسیٰ کو عہدہ سنبھالنے سے قبل ہی بڑے امتحان میں ڈال دیا ہے۔

متعلقہ تحاریر