فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کا فیصلہ عید سے قبل سنانا چاہتے ہیں، چیف جسٹس

کیس کی سماعت 26 جون تک ملتوی کردی گئی۔ اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہ کوئی صحافی، نابالغ، خاتون اور وکیل فوج کی تحویل میں نہیں، صرف 102 افراد فوج کی تحویل میں ہیں۔

جمعے کے روز چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے سات رکنی بینچ نے فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کی۔

سپریم کورٹ کے دیگر بنچوں کی کاز لسٹ لارجر بنچ کی سماعت کے باعث منسوخ کر دی گئی ہے کیونکہ تین باقاعدہ بنچ مقدمات کی سماعت کرنے والے تھے۔

کیس کی سماعت پیر (26 جون) صبح 9:30 بجے تک ملتوی کر دی گئی ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سپریم کورٹ عید کی تعطیلات سے قبل ’فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل‘ کیس کا فیصلہ سنانا چاہتی ہے۔

اٹارنی جنرل آف پاکستان (اے جی پی) نے عدالت کو آگاہ کیا کہ کوئی صحافی، نابالغ، خاتون اور وکیل پاکستان کی مسلح افواج کی تحویل میں نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ کوئی بھی شخص اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری (آئی سی ٹی) پولیس کی تحویل میں نہیں ہے۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد (آئی سی ٹی) پولیس کی تحویل میں کوئی گرفتار شخص نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ پشاور میں چار افراد زیر حراست ہیں جبکہ پنجاب میں ایم پی او کے تحت 21 افراد گرفتار ہیں اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت 141 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔

منصور عثمان اعوان کا کہنا تھا کہ سندھ میں 172 افراد عدالتی تحویل میں ہیں اور 345 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا جن میں سے 70 افراد کو بعدازاں کو رہا کر دیا گیا۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کا کہنا تھا کہ تھری ایم پی او کے تحت 117 افراد عدالتی تحویل میں ہیں اور صرف 102 ملزمان فوج کی تحویل میں ہیں۔

تمام ملزمان کے ساتھ یکساں سلوک ہونا چاہیے

درخواست گزار چوہدری اعتزاز احسن اور ان کے وکیل سردار لطیف کھوسہ جبکہ سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی سپریم کورٹ پہنچے۔

سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیق کا اپنے دلائل میں کہنا تھا کہ ان کی درخواست دیگر درخواستوں سے مختلف ہے اور وہ اس بات پر بحث نہیں کریں گے کہ "آفیشل سیکرٹ ایکٹ” کے تحت کسی سویلین کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا۔

ایڈووکیٹ فیصل صدیق کا کہنا تھا کہ "کچھ مدعا علیہان کے ساتھ مختلف سلوک کیا گیا ہے۔ یعنی ایک ایف آئی آر میں 60 ملزمان نامزد کیے گئے ، پھر ان میں سے صرف 15 فوجی عدالتوں کے حوالے کردیئے گئے۔

ایڈووکیٹ فیصل صدیق کا کہنا تھا کہ "میرا سوال یہ صرف یہ ہے کہ جب ایف آئی آر میں الزامات ایک طرح کے ہیں تو ٹرائل تین طرح کے کیسے ہوسکتے ہیں؟۔

فیئر ٹرائل

ان کا کہنا تھا "میرا دوسرا نکتہ منصفانہ ٹرائل کے بارے میں ہے۔ کسی الزام پر مقدمے کی سماعت کے بعد کچھ کو اپیل کا حق ہوگا اور کچھ کو نہیں ہوگا۔

ایڈووکیٹ فیصل صدیق نے لیاقت حسین، سعید زمان اور ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے کیسز کا حوالہ دیا۔ فیصل صدیق نے خود ہی اپنے سوال کا جواب دیا کہ عدالتی فیصلے کہتے ہیں کہ واضح فرق ہونا چاہیے۔

ایڈووکیٹ فیصل صدیق نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ "ہم یہ نہیں کہتے کہ لوگوں کو سخت آزمائش کا سامنا نہیں کرنا چاہئے۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت سے زیادہ سخت ٹرائل کیا ہو سکتا ہے؟۔‘‘

ججز کے ریمارکس

جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ وہ کون سے مخصوص حالات ہیں جن میں فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہو سکتا ہے؟۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ قومی سلامتی کی وجہ سے کہا گیا کہ یہ ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہوں گے۔

جسٹس منصور نے مزید کہا کہ ‘اگر وہ ریاستی تحفظ کی حدود میں جائیں تو مقدمہ فوجی عدالتوں میں ہونے کا ذکر ہے’۔

جسٹس مظاہر اکبر نقوی نے استفسار کیا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کب بنایا گیا؟

جسٹس یحییٰ آفریدی نے فیصل صدیق سے استفسار کیا کہ کیا آپ نہیں سمجھتے کہ اٹارنی جنرل سے پہلے فارمیشن کا پوچھا جائے۔

چیف جسٹس آف پاکستان بندیال نے وکیل فیصل صدیق کو اپنے دلائل جاری رکھنے کو کہا اور ریمارکس دیئے کہ وکلا کے دلائل کے بعد عدالت اٹارنی جنرل کو سنے گی۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے استفسار کیا کہ جو تفصیلات آپ سے مانگی گئیں تھیں وہ جمع کرادی گئی ہیں۔

جسٹس عائشہ ملک نے فیصل صدیق کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ‘ہوسکتا ہے کہ جن لوگوں کو فوجی عدالتوں کے حوالے کیا گیا ان کے خلاف الزامات کی نوعیت مختلف ہو۔’ انہوں نے مزید کہا کہ ‘آپ صرف یہ سمجھ کر کہہ رہے ہیں کہ ان لوگوں کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے’۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے ایڈووکیٹ فیصل صدیق کو مزید کہا کہ ‘آپ عام بحث میں جارہے ہیں، یہ بھی نہیں معلوم کہ ان لوگوں کو کس شق کے تحت فوجی عدالتوں میں بھیجا گیا’۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے ایڈووکیٹ فیصل صدیق کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنے دلائل کو متعلقہ نکات تک اٹھا کر رکھیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ قانون یہ نہیں کہتا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ صرف اس صورت میں لاگو ہوگا جب کوئی شخص فوج میں کام کر رہا ہو۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ ایکٹ فوجی حدود میں رہنے کے جرم پر بھی لاگو ہوتا ہے۔

پنجاب حکومت نے سپریم کورٹ میں ڈیٹا کی تفصیلات جمع کرا دیں۔

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کی جانب سے عدالت میں جمع کرائی گئی رپورٹ کے مطابق مئی کے 9 واقعات میں 81 خواتین کو حراست میں لیا گیا جن میں سے 42 کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ جبکہ 49 انتالیس خواتین اس وقت جوڈیشل ریمانڈ پر جیلوں میں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تھری ایم پی او کے تحت 2250 افراد کی گرفتاری کے احکامات جاری کیے گئے۔ 9 مئی کے توڑ پھوڑ کے واقعات میں 3050 افراد ملوث پائے گئے۔

اس وقت تھری ایم پی او کے تحت 21 افراد قید ہیں جبکہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت 1888 افراد کو گرفتار کیا گیا۔

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کے مطابق 108 ملزمان جسمانی ریمانڈ پر اور 1240 جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں۔

رپورٹ کے مطابق 33 لوگوں کی انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت شناخت کی گئی جبکہ 500 افراد کو بے گناہ قرار دے کر رہا کر دیا گیا۔

32 افراد کو ضمانت پر رہا کیا گیا جبکہ 4119 افراد انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا ، 42 کو انسداد دہشتگردی کی دیگر دفعات ک تحت گرفتار کیا گیا۔ 86 افراد جسمانی ریمانڈ پر ہیں۔

کیس کی سماعت 15 منٹ کے لیے ملتوی کر دی گئی بعد ازاں دوبارہ شروع کی گئی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ فوجی عدالتوں میں کسی پر الزام لگانے کا کیا طریقہ ہے؟، کیونکہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ محدود علاقوں کی عمارتوں اور کچھ سول عمارتوں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔

جسٹس مظاہر اکبر نقوی نے سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیق سے استفسار کیا کہ آپ بنیادی بات پر نہیں آئے۔

جسٹس نقوی نے کہا کہ ایف آئی آر میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات کب شامل کی گئیں اور اگر ایف آئی آر میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات شامل نہیں ہیں تو کیا کمانڈنگ آفیسر ملزم کی حوالگی کی درخواست کر سکتا ہے؟

متعلقہ تحاریر