سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا معاملہ: جسٹس طارق مسعود نے درخواستوں کی شیڈولنگ پر اعتراض اٹھا دیا

سپریم کورٹ کے سینئر جج نے سوال اٹھایا ہے کہ درخواست گزار اور ان کے وکیل نے ایک روز قبل چیف جسٹس سے ان کے چیمبر میں ملاقات کی اور اگلے روز درخواستوں کو سماعت کے لیے مقرر کردیا گیا۔

سپریم کورٹ کے ججز کے درمیان اختلافات مزید واضح ہوتے جارہے ہیں ، عدالت عظمیٰ کے سینئر جج جسٹس سردار طارق مسعود نے فوجی عدالتوں میں شہریوں کے مقدمے کی سماعت کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی فوری شیڈولنگ پر سنگین سوالات اٹھا دیئے ہیں۔

جسٹس سردار طارق مسعود نے درخواست گزار چوہدری اعتزاز احسن کی چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال سے ان کے چیمبر میں ملاقات کے فوری بعد درخواستوں کو سماعت کے لیے مقرر کیے جانے پر حیرت کا اظہار کیا۔

جسٹس سردار طارق مسعود نے عدالتی نوٹ میں اس بات پر زور دیا کہ کیسز کے لیے بینچ کی تشکیل سے پہلے ان سے مشاورت نہیں کی گئی۔

انہوں نے درخواست گزاروں کو اپنے مقدمات کو تیز کرنے کے لیے چیف جسٹس سے ملنے کی اجازت دینے کے طریقہ کار پر سوال اٹھایا ہے اور اس بارے میں وضاحت طلب کی ہے کہ کیا یہ استحقاق تمام زیر التواء درخواست گزاروں کو حاصل ہوگا؟۔

یہ بھی پڑھیے

اسلام آباد کی عدالتوں سے پی ٹی آئی چیئرمین کو 14 مقدمات میں عبوری ضمانت مل گئی

وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید کو عدالت نے نااہل قرار دے دیا

جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا ہے کہ "حیرت کی بات یہ ہے کہ اس بینچ میں یہ درخواستیں اس وقت شیڈول کی گئیں ، جبکہ صرف ایک روز قبل آئینی پٹیشن نمبر 25 آف 2023 کے درخواست گزار نے خود اپنے وکیل کے ہمراہ چیف جسٹس سے ان کے چیمبر میں ملاقات کی تھی اور اس کے بعد اگلے دن یہ درخواستیں بغیر کسی مشاورت کے شیڈول کردی گئیں۔

جسٹس سردار طارق مسعود نے یہ بھی سوال اٹھایا ہے کہ "کیا اس پریکٹس کی اجازت ہے کہ کیا ہر درخواست گزار/ اپیل کنندگان جن کی درخواستیں/ اپیلیں اس عدالت میں برسوں سے پڑی ہیں؟۔ کیا انہیں چیف جسٹس سے ان کے چیمبر میں ملنے کی اجازت دی جا سکتی ہے؟ .

انہوں نے کہا کہ وہ ان درخواستوں کے فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں جن کے ذریعے سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 (ایکٹ’) کو چیلنج کیا گیا ہے ، اور عدالت عظمیٰ نے یک طرفہ حکم امتناع جاری کرتے ہوئے اس وقت کے بل اور مجوزہ ایکٹ کی کارروائی کو معطل کر دیا تھا۔

مجوزہ ایکٹ کے سیکشن 3 میں کہا گیا ہے کہ "آئین کے آرٹیکل 184 کی شق 3 کے تحت اصل دائرہ اختیار کو استعمال کرنے والے کسی بھی معاملے کو پہلے سیکشن 2 کے تحت تشکیل دی گئی کمیٹی کے سامنے جانچ کے لیے رکھا جائے گا اگر کمیٹی کا خیال ہے کہ عوامی اہمیت کا سوال ہے، تو کمیٹی ایک بینچ تشکیل دے گا جس میں سپریم کورٹ کے کم از کم تین ججز ہوں گے جس میں عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے لیے کمیٹی کے رکن بھی شامل ہوں گے۔

جسٹس سردار مسعود نے اعتراض اٹھایا ہے کہ "موجودہ معاملہ کمیٹی کو نہیں بھیجا گیا جس کے وہ رکن ہیں۔ صرف یہ خیال کرتے ہوئے کہ ایکٹ کو ختم کر دیا جائے گا، ایکٹ کے سیکشن 3 میں فراہم کردہ طریقہ کار کو نظر انداز کردیا گیا۔”

جب حکم امتناعی جاری کیا گیا تو میں مذکورہ درخواستوں کے حتمی فیصلے تک بینچ پر بیٹھنے سے بھی گریزاں تھا جس میں ایکٹ کو چیلنج کیا گیا تھا لیکن میں ایک بینچ کی سربراہی کر رہا تھا جس میں روزانہ تقریباً تیس سے پینتیس فوجداری مقدمات طے ہوتے تھے۔

"اگرچہ اس عرصے کے دوران میں نے دو رکنی بنچ کی سربراہی کرتے ہوئے، 2016 کی آئینی پٹیشنز نمبر 26 اور 28 کی سماعت کی جس کا عنوان تھا محمد طارق اسد بمقابلہ فیڈریشن آف پاکستان اور امیر جماعت اسلامی سراج الحق بمقابلہ فیڈریشن آف پاکستان تھے۔ آرٹیکل 184 (3) کے تحت ان درخواستوں کے قابل سماعت ہونے کے بارے میں، پانچ رکنی بینچ نے پہلے ہی اپنا فیصلہ اثبات میں دے چکا تھا۔

جسٹس سردار طارق مسعود نے مزید کہا ہے کہ "کچھ سوالات تیار کرنے کے بعد بھی، میں نے مذکورہ کیس کو ایک ماہ سے زیادہ کے لیے اس امید کے ساتھ ملتوی کر دیا کہ اس وقت تک مذکورہ ایکٹ کے خلاف درخواستوں کا فیصلہ ہو جائے گا۔”

جسٹس طارق نے اپنے نوٹ میں آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کو چیلنج کرنے والی چار درخواستوں کے قابل عمل ہونے پر بھی سوال اٹھایا ہے۔

"یہ چار درخواستیں ان لوگوں کی طرف سے دائر کی گئی ہیں جنہیں بظاہر حراست میں نہیں لیا گیا اور نہ ہی ان جرائم کے حوالے سے انہیں مقدمے کا سامنا ہے، جو مبینہ طور پر 9 مئی 2023 کو فوجی تنصیبات میں کیے گئے تھے اور مذکورہ افراد نے سرکاری املاک میں توڑ پھوڑ کی ، املاک کو آگ لگائی گئی۔ ان میں جی ایچ کیو سمیت مسلح افواج کی املاک، پی اے ایف بیس اور دیگر ممنوعہ علاقے بھی شامل ہیں۔

متعلقہ تحاریر