سپریم کورٹ میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ میں ترامیم کے خلاف ازخود نوٹس کے لیے درخواست دائر
چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ لارجر بینچ کے فیصلے کے مطابق چیف جسٹس اکیلے ازخود نوٹس نہیں لے سکتے۔
سینئر وکیل اور پیپلز پارٹی کے رہنما اعتزاز احسن نے سپریم کورٹ سے آفیشل سیکریٹ ایکٹ میں ترامیم کے خلاف ازخود نوٹس لینے کی استدعا کردی ہے۔
دریں اثناء بعد ازاں سماعت غیر معینہ مدت تک کےلیے ملتوی کر دی گئی۔
سینئر قانون دان اعتزاز احسن نے یہ اپیل فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کے خلاف متعدد درخواستوں کی سماعت کے دوران کی۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ اے ملک پر مشتمل چھ رکنی بینچ نے درخواستوں کی دوبارہ سماعت کی۔
یہ بھی پڑھیے
توشہ خانہ فوجداری کیس: عمران خان نے دفاع کا حق معطل کرنے کا فیصلہ چیلنج کردیا
پی ٹی آئی رہنما افتخار درانی کو گرفتار کرلیا، بیٹے کا دعویٰ
سماعت کے دوران اعتزاز احسن نے کہا کہ جاسوسی ایجنسیوں کو لامحدود اختیارات دینے کا نیا قانون پاس کیا گیا ہے۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ بل کے مطابق انٹیلی جنس ایجنسیاں بغیر وارنٹ کے کسی کے گھر پر چھاپہ مار سکتی ہیں، بغیر وارنٹ کے گھروں کی تلاشی کا اختیار قانون سازی کے ذریعے دیا گیا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ لارجر بنچ کے فیصلے کے مطابق اکیلا چیف جسٹس از خود نوٹس نہیں لے سکتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ بل ابھی پارلیمنٹ میں زیر بحث ہے، اور عدالت کو اس کا زیادہ علم نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے اعتزاز احسن کا مخاطب کرتے ہوئے پوچھا کہ "کیا یہ ابھی تک قانون ہے یا صرف ایک بل؟” جس پر سینئر وکیل کا کہنا تھا کہ یہ ایک بل ہے جو قومی اسمبلی سے پاس ہوا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ صرف ایک فورم نے بل پاس کیا، اب دیکھتے ہیں دوسرا فورم کیا فیصلہ کرتا ہے۔ خوش قسمتی سے، اس بل پر اب بھی پارلیمنٹ کے ایک ایوان میں بحث جاری ہے۔
سینئر وکیل اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک میں مارشل لاء جیسی صورتحال ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت بینچ کے 6 ججز کی حیثیت فل کورٹ کی ہے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ فوجی عدالتوں میں شہریوں کا ٹرائل متوازی نظام عدل کے مترادف ہے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے استفسار کیا کہ آرٹیکل 175 اور 175 (3) کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
اٹارنی جنرل فار پاکستان منصور عثمان اعوان نے کہا کہ کورٹ مارشل آرٹیکل 175 کے تحت نہیں آتا۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ بنیادی انسانی حقوق کو مقننہ کی صوابدید پر نہیں چھوڑا جا سکتا، ریاست بنیادی انسانی حقوق کے تصور کو واپس نہیں لے سکتی۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ انصاف تک رسائی بنیادی انسانی حق ہے۔
اٹارنی جنرل فار پاکستان منصور عثمان اعوان نے کہا کہ فوجی عدالتیں مسلح افواج اور دفاع سے جڑے لوگوں کے لیے ٹریبونل کی طرح ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ کورٹ مارشل آرٹیکل 175 کے تحت قائم کی گئی عدالت کے زمرے میں نہیں آتا، اس لیے اس میں اپیل کا کوئی حق نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت آرمی ایکٹ کے تحت جرائم میں شہریوں کے ٹرائل کا آئینی جائزہ لے رہی ہے۔
"ہم اب آئینی طریقہ کار کی طرف بڑھ رہے ہیں،” چیف جسٹس بندیال نے پوچھا کہ کیس فوجی عدالت میں کیسے جاتا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ بنیادی انسانی حقوق کو قانون سازوں کی صوابدید پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ ممکن نہیں کہ ایک پارلیمنٹ کچھ جرائم کو آرمی ایکٹ میں شامل کرے اور کچھ کو دوسری عدالت میں۔
جسٹس منیب اختر نے مزید کہا کہ بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت آئین نے دی ہے۔
اے جی پی نے مزید کہا کہ فوجی عدالتوں کا قیام مسلح افواج کے ارکان اور دفاعی امور کے لیے ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ فوجی عدالت مسلح افواج سے متعلق کسی جرم کے ملزم سویلین پر مقدمہ چلا سکتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آئین میں قانون اور افواج کا واضح طور پر ذکر ہے۔ یہ قانون مسلح افواج کے خلاف لڑنے والے افراد کے لیے ہے۔
اے جی پی نے سپریم کورٹ کا 2015 کا فیصلہ پڑھنے کو کہا جس میں انہوں نے کہا کہ فوجی تنصیبات پر حملے کا ذکر ہے۔
جسٹس منیب اختر نے پوچھا کہ کیا ایسے افراد کے لیے متوازی عدالتی نظام بنایا گیا؟
سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ آئندہ دو ہفتوں تک دوبارہ سماعت نہیں ہو سکتی، ساتھیوں سے مشاورت کے بعد تاریخ طے کریں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں اپنے ساتھیوں کو قائل کرنے کی کوشش کروں گا جب وہ واپس آئیں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ فوجی عدالتوں کے ذریعے لوگوں کے بنیادی انسانی حقوق چھیننا چاہتے ہیں۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ کیا فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل متوازی عدالتی نظام نہیں؟۔ جس پر اعتزاز احسن نے عدالت کو بتایا کہ پارلیمنٹ جلدی میں ہے۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ وہ پہلے ہی عدالت کو یقین دہانی کراچکے ہیں کہ کس بنیاد پر فیصلے کیے جائیں گے۔
انہوں نے عدالت کو مزید یقین دلایا کہ آئین اور قانون کو پامال کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔
جسٹس آفریدی نے کہا کہ میری سمجھ سے آپ کہہ رہے ہیں کہ فوجی عدالتیں عدالت کے زمرے میں نہیں آتیں۔
چیف جسٹس بندیال نے ریمارکس دیے کہ 9 مئی کو جو کچھ ہوا وہ بہت سنگین تھا، انہوں نے مزید کہا کہ وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ ملکی فوج شہریوں کے خلاف ہتھیار استعمال کرے۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیئے کہ فوج سرحدوں کی محافظ ہے، میانوالی ایئربیس پر حملہ ہوا جہاں میراج طیارے کھڑے تھے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ "ہم فوج کو غیر آئینی اقدامات کرنے سے روکیں گے۔” انہوں نے مزید کہا کہ ان کے ساتھی ججوں میں سے ایک کو ایک اہم ذمہ داری نبھانی ہے، جس کا وہ ذکر نہیں کرنا چاہتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ وہ نہیں چاہتے کہ پاک فوج اپنی بندوقیں شہریوں پر تان لے، فوج کا کام شہریوں کی حفاظت کرنا ہے۔