صدر مملکت نے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی منظوری دے دی
قومی اسمبلی کی تحلیل کی سمری وزیراعظم شہباز شریف نے آج صدر عارف علوی کو بھجوائی تھی۔
ایک اہم پیش رفت میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے بدھ کی رات قومی اسمبلی کی تحلیل کی سمری پر باضابطہ دستخط کر دیئے۔
یہ اقدام وزیر اعظم کی ایڈوائس کے بعد کیا گیا ہے، صدر مملکت کی منظوری ملک نئی سیاسی سرگرمیوں کے ایک نئے مرحلے کی جانب گامزن ہو گیا ، یہ تبدیلی آئندہ انتخابات کی تیاریوں کی جانب ایک واضح اشارہ ہے۔
اس سے قبل وزیر اعظم شہباز شریف نے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی باضابطہ طور پر تجویز پیش کرتے ہوئے سمری صدر عارف علوی کو ارسال کی تھی۔
رولز آف لاء کے مطابق اگر صدر عارف علوی سمری پر دستخط نہ کرتے تو قومی اسمبلی 48 گھنٹوں میں ازخود تحلیل ہو جانا تھی۔
وزیراعظم شہباز شریف کے اعلان کے بعد وہ جمعرات (10 اگست) کو قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض سے ملاقات کریں گے۔
وزیر پارلیمانی امور مرتضیٰ جاوید عباسی نے حکومت تحلیل کرنے کا اعلان کردیا۔ انہوں نے کہا کہ منتخب حکومت نے اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کر لی ہے۔
مرتضیٰ جاوید عباسی نے کہا کہ سمری میں آرٹیکل 224 کے تحت نگراں حکومت کے قیام کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
وزارت پارلیمانی امور سمری کی منظوری اور نگراں حکومت کے قیام کے بعد نوٹیفکیشن جاری کرے گی۔
یہ متوقع اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب مخلوط حکومت کو اپنے آخری ایام کو سامنا تھا ، کیونکہ موجودہ حکومت کی آئینی مدت 12 اگست کو ختم ہونا تھی ، تاہم پارلیمنٹ نے مشترکہ طور پر اسمبلی کو آئین کے اندر رہتے ہوئے تین روز قبل ہی اسمبلی تحلیل کرنے کی منظوری دی تھی۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ قبل ازوقت اسمبلی تحلیل کرنے کا مقصد انتخابات کو تاخیر کا شکار کرنا ہے ، کیونکہ اگر اسمبلی 12 اگست کو تحلیل کی جاتی تو الیکشن کمیشن کے لیے 60 دنوں کے اندر انتخابات کرنا ضروری ہو جاتے ، مگر قبل از وقت اسمبلی تحلیل ہونے پر 90 دن کا وقت مل جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ حکومت کی انتخابات کو تاخیر شکار کرنے کی چال تھی جس میں وہ کامیاب ہوگئی ہے۔
آئین کے آرٹیکل کے مطابق اگر وزیراعظم صدر مملکت کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری روانہ کرتے ہیں تو صدر مملکت سمری پر دستخط نہیں کرتے تو آئین کے تحت اسمبلی 48 گھنٹوں میں ازخود تحلیل ہوجاتی۔
گزشتہ سال قومی اسمبلی کی حزب اختلاف کی جماعتوں نے وزیراعظم عمران خان کی حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے گھر بھیج دیا تھا ، جس کے بعد سے ملک کے اندر سیاسی کشمکش اپنے عروج پر تھی۔