سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کالعدم قرار دینے کا فیصلہ معطل

سپریم کورٹ نے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کالعدم قرار دینے کا فیصلہ معطل کردیا۔

سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل جاری رکھنے کی اجازت دے دی تاہم فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا حتمی فیصلہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے مشروط ہوگا۔

فوجی عدالتوں میں سویلینز ٹرائل کالعدم قرار دینے کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت ہوئی۔

جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔ جسٹس امین الدین خان، جسٹس محمد علی مظہر،جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس عرفان سعادت خان لارجر بینچ کا حصہ ہیں۔

فیصلہ پانچ ایک کی اکثریت سے معطل کیا گیا، جسٹس مسرت ہلالی نے 5 ججز کے فیصلے سے اختلاف کیا۔

سپریم کورٹ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اپیلوں پر فیصلے تک 102 گرفتار افراد کے ٹرائل کا حتمی فیصلہ نہیں کیا جائے گا۔

فوجی عدالتوں میں سویلینز ٹرائل کالعدم قرار دینے کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت ہوئی۔

جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بینچ سماعت کر رہا ہے۔ جسٹس امین الدین خان، جسٹس محمد علی مظہر،جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس عرفان سعادت خان لارجر بینچ کا حصہ ہیں۔

جسٹس طارق مسعود کا بینچ سے الگ ہونے سے انکار
اس سے قبل سماعت کے دوران سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے اعتراض پر 6 رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس سردار طارق مسعود نے بینچ سے الگ ہونے سے انکار کردیا۔

جسٹس سردار طارق مسعود نے فریقین کے وکلاء سے سوال کیا کہ آپ کو نوٹس کیا ہے کسی نے؟

وکیل اعتزاز احسن نے کہا کہ نوٹس سے پہلے ججز پر اعتراض ہو تو اس پر دلائل ہوتے ہیں۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ فریقین کے وکلاء کا اعتراض بے بنیاد ہے، پہلے میرٹ پر کیس سنیں، نوٹس کے بعد اعتراض اٹھایا جا سکتا ہے۔

وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ نوٹس ہونے کے بعد اعتراض اٹھانے پر کیس متاثر ہو گا۔

جسٹس سردار طارق نے وکلاء سے سوال کیا کہ کس نے اعتراض کیا ہے؟

وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ اعتراض جواد ایس خواجہ نے کیا ہے۔

جسٹس سردار طارق نے کہا کہ جواد ایس خواجہ کا اپنا فیصلہ ہے کہ جج کی مرضی ہے وہ اعتراض پر بینچ سے الگ ہو یا نہ ہو، میں نہیں ہوتا بینچ سے الگ، کیا کر لیں گے؟

وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ آپ بیٹھ کر ہمارے اعتراض کے باوجود کیس سن رہے ہیں۔

جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ تو کیا کھڑے ہو کر کیس کی سماعت کریں؟

اٹارنی جنرل غصے میں آ گئے
اٹارنی جنرل دورانِ سماعت غصے میں بھی آئے۔

انہوں نے کہا کہ جب نوٹس نہیں تو اعتراض کیسے سنا جا سکتا ہے؟ جنہوں نے اعتراض کیا وہ خود تو عدالت میں نہیں ہیں، بہتر ہے پہلے بینچ اپیلوں پر سماعت کا آغاز کرے۔

23 فوجیوں کی شہادت کا تذکرہ

سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت کے دوران گزشتہ روز پیش آئے 23 فوجیوں کی شہادت کے واقعے کا تذکرہ بھی ہوا۔

جسٹس سردار طارق نے کہا کہ کل جو 23 بچے شہید ہوئے ان پر حملہ کرنے والوں کا ٹرائل کیسے ہو گا؟

انہوں نے کہا کہ فوجی جوانوں کو شہید کرنے والوں کا تو اب ٹرائل نہیں ہو سکے گا کیونکہ قانون کالعدم ہو چکا، جنہوں نے کل 23 جوان شہید کیے ان سویلینز کا ٹرائل اب کس قانون کے تحت ہو گا؟

جسٹس سردار طارق نے مزید کہا کہ سیکشن 2 ون ڈی کالعدم ہونے کے بعد دہشت گردوں کا ٹرائل کہاں ہو گا؟

وکیل سلمان اکرم راجۃ نے کہا کہ عدالت موقع دے تو اس معاملے پر سیر حاصل دلائل دیں گے۔

5 رکنی بینچ نے ٹرائل کالعدم قرار دیا تھا
5 رکنی بینچ نے 23 اکتوبر کو سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کو کالعدم قرار دیا تھا۔

اس فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت، وزارتِ دفاع، وزارتِ داخلہ، بلوچستان، خیبر پختون خوا اور پنجاب حکومت نے اپیلیں دائر کر رکھی ہیں۔

متعلقہ تحاریر