الیکشن ٹربیونل کیوں تبدیل کیا، الیکشن کمیشن کو جوابدہ ہونا ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے اسلام آباد کے الیکشن ٹربیونل تبدیلی پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔
ہائیکورٹ میں الیکشن ترمیمی آرڈیننس اور الیکشن کمیشن میں ٹربیونل تبدیلی سے متعلق جاری کارروائی کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت ہوئی۔
شعیب شاہین ایڈووکیٹ نے مؤقف اختیار کیا کہ الیکشن ٹربیونل نے لیگی ایم این ایز کو وقت دیا، لیکن انہوں نے ٹربیونل میں کوئی جواب تک جمع نہیں کروایا۔
جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ ٹربیونل کو تبدیل کیوں کیا ہے؟ سرکار مجھے سمجھائے سال پہلے یہ ترمیم ختم کی اب پھر آرڈیننس کے ذریعے لے آئے ہیں ، قائم مقام صدر کیسے آرڈیننس جاری کرسکتا ہے، کیا ایمرجنسی تھی کہ رات و رات آرڈیننس آگیا، سسٹم کو سسٹم رہنے دیں۔
شعیب شاہین نے استدعا کی کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کو چیلنج کریں گے، عدالت کے پاس جو درخواست زیر سماعت ہے اس پر نشستوں کو برقرار کردیں ، آج تک جو کچھ ہوا ہے اس تک برقرار رکھ دیں۔
علی بخاری ایڈووکیٹ نے کہا کہ آج ہم آٹھ فروری کی پوزیشن پر واپس چلے گئے ہیں۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ ٹربیونل مجھ سے مشاورت کے بعد بنائے گئے ہیں، میں نے نام تجویز کئے منظوری تو آپ نے دی تھی، پھر اب ٹربیونل کا جج تبدیل کرنے کی کیا ضرورت تھی، الیکشن کمیشن کے پاس ریکارڈ منگوانے کا کیا اختیار تھا ؟ جج تبدیلی کی درخواستیں ہمارے پاس بھی آتی ہیں ہم تو ریکارڈ نہیں منگواتے ، آپ کو جوابدہ ہونا ہے، ہم نے عزت دی کہ آئینی باڈی ہے اس لیے دو دن کا وقت دیا، کیا نئے جج کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا ہے؟
عدالت نے استفسار کیا کہ ابھی جو ٹریبیونل بنایا ہے کیا اسلام آباد کے لئے ہے ؟
وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ سات جون کو نوٹس ہو چکا ابھی میرے پاس نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن ٹربیونل کا نوٹیفکیشن آپ کے پاس نہیں تو پھر میڈیا کے پاس کیسے چلے گئے، الیکٹرانک میڈیا کو نئے ٹربیونل کی تشکیل کا کیسے معلوم ہوا، آپ غلط کررہے ہیں ایسا نہ کریں، سوچ سمجھ کے جواب دیجئے گا ، اس کیس کو آج ہی دو بجے سنیں گے، آپ سوچ لیں آپ نے کیا کرنا ہے، آپ نے جو ٹرانسفر کے احکامات جاری کئے ہیں وہ قانونی طور برقرار نہیں رہ سکتا۔