پنجاب میں سکھ میرج ایکٹ سیاسی رسہ کشی کی نذر

وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت نے بتایا کہ قانون میں غلطیوں کی وجہ سے اُسے نافذ نہیں کیا گیا۔

پاکستان کے صوبہ پنجاب میں ڈھائی سال سے زیادہ وقت گزرنے کے باوجود سکھ میرج ایکٹ کے رولز آف بزنس نہیں بن سکے جس کے باعث قانون پر عملدرآمد نہیں ہو سکا ہے۔ حزب مخالف اور حکومت کے درمیان سیاسی رسہ کشی کے اثرات اقلیتوں پر بھی پڑنے لگے ہیں۔ سکھ برادری میں اس قانون کے نافذ نا ہونے پر بے چینی پائی جاتی ہے۔

پاکستان مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں ن لیگ سے تعلق رکھنے والے اقلیتی رکن پنجاب اسمبلی رمیشن سنگھ نے 2018 میں سکھ میرج ایکٹ جمع کروایا تھا۔ اس قانون کو اسمبلی میں متفقہ طور پر منظور کرلیا گیاتھا۔

اس قانون سے قبل سکھوں میں کیسے شادی ہوا کرتی تھی؟

پنجاب میں مقیم سکھ کمیونٹی کی شادی کا طریقہ کار انتہائی سادہ ہے لیکن اُس کی قانونی حیثیت نہیں ہوتی۔ تاہم شادی کا پیپر ورک ایک سادہ کاغذ یا گوردوارے کے گرنتی کے لیٹر ہیڈ پر کیا جاتا ہے جس پر شادی کے جوڑے سمیت گواہان اپنے دستخط کرتے ہیں۔ بعد میں اس دستاویز کی گوردوارے کا گرنتی تصدیق کرتا ہے۔ تصدیق شدہ دستاویز کو نادرہ میں پیش کرنے پر شادی شدہ جوڑے کا شناختی کارڈ بنوایا جاسکتا ہے۔

سکھ میرج ایکٹ کے بنیادی نکات

پنجاب اسمبلی میں بنائے گئے سکھ میرج ایکٹ کو بنانے کا بنیادی مقصد تھا کہ سکھ برداری کے شادی اور شادی کے حوالے سے دیگر مسائل کو حل کیا جا سکے۔ اِس قانون کے ذریعے شادی کا اندراج اور سکھوں کی ازدواجی زندگی کے معاملات کو بھی قانونی شکل دی جانی تھی۔ تاکہ مستقبل میں ان کو بطور اقلیت شادی سے متعلق مسائل کا سامنا  نا کرنا پڑتا۔

  1. سکھ میرج رجسٹریشن فارم بنائے جائے جائیں گے۔
  2. شادی شدہ جوڑے کو شادی سرٹیفکیٹ جاری کیا جائے گا۔
  3. سکھ جوڑے کو بطور پاکستانی مکمل قانونی تحفظ حاصل ہوگا۔

پنجاب اسمبلی میں سیاسی رسہ کشی

گزشتہ اجلاس میں ن لیگ کے رکن پنجاب اسمبلی رمیشن سنگھ اروڑا نے پوائنٹ آف آڈر پر بات کرتے ہوئے اس قانون پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ڈھائی سال گزرنے کے باوجود اس قانون کو نافذ نہیں کیا گیا۔ اسپیکر پنجاب اسمبلی نے وزیر قانون راجہ بشارت کو اس کا جواب دینے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ اس قانون کو جلداز جلد مکمل کیا جائے۔ وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت نے بتایا کہ قانون میں غلطیوں کی وجہ سے اُسے نافذ نہیں کیا گیا۔ متعلقہ محکمے کو ہدایت کردی گئی ہے آئندہ 15 روز میں اِس قانون کے رولز آف بزنس تیار کرکے عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔

ن لیگ کا سکھ میرج ایکٹ پر موقف

رکن پنجاب اسمبلی رمیش سنگھ اروڑا نے نیوز 360 کو بتایا کہ ’سکھ میرج ایکٹ ہماری حکومت نے 2018 میں متفقہ طور پر منظور کرایا تھا لیکن اس کے بعد ہماری حکومت نہ رہی۔ صرف یہ ہونا تھا کہ اس ایکٹ کے تحت رولز بنائے جائیں اور اس کے مطابق رجسٹریشن شروع کی جائے۔ مگر اڑھائی سال گزرنے کے باوجود رولز نہیں بنائے گئے۔‘

سکھ میرج ایکٹ

رمیش سنگھ نے مزید کہا کہ اس قانون کے حوالے سے وزیر قانون سمیت وزارت انسانی حقوق و اقلیتی امور سے بات کرنے کے باوجود کوئی مناسب جواب نہیں دیا گیا۔ موجودہ حکومت اُن کے باقی کاموں پر تختیاں لگانے کی طرح اس پر بھی اپنا نام لگا لیں مگر قانون کو سکھ برداری کی آسانی کےلیے نافذ ضرور کریں۔

حکمران جماعت کا سکھ میرج ایکٹ پر موقف

صوبہ پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رکن اسمبلی سردار مہندر پال سنگھ نے ن لیگ کے دور میں بنائے گئے سکھ میرج ایکٹ کو سکھ مذہب کے مطابق غلطیوں کا مجموعہ قرار دیا۔ نیوز 360 سے گفتگو کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ ن لیگ نے بس سیاست کرنے کے لیے حکومت کے اختتام میں یہ قانون ترتیب دیا تھا۔ مہندر پال سنگھ کے مطابق ’اس قانون کی غلطیوں کی وجہ سے رولز آف بزنس نہیں بنائے جا سکے۔ پنجاب اسمبلی میں سکھ میرج ایکٹ کے لیے میری سربراہی میں 6 رکنی کیمٹی تشکیل دی گئی جس میں ن لیگ کے سکھ ایم پی اے رمیش سنگھ سمیت 2 گرنتی،  پاکستان سکھ گورداوراپربندک کمیٹی کے صدر اور ایک پنجابی سکھ سنگت کے چیئرمین شامل کیے گئے۔‘

اُن کے مطابق رولز آف بزنس بنانے کےلیے جولائی 2020 میں اجلاس ہوا جس میں سکھ برداری کی شادی ایکٹ کےلیے سکھ مذہبی سکالرز، سکھ قانونی ماہرین کی رائے اور تمام تر پہلو دیکھتے ہوئے رولز آف بزنس تشکیل دینے کی سفارشات تیار کی گئیں۔ جبکہ اپوزیشن کے نمائندے لیگی ایم پی اے رمیش سنگھ اروڑا اجلاس ختم ہونے کے بعد اسمبلی پہنچے۔

سردار مہندر پال سنگھ نے رولز آف بزنس بننے کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں نیوز360 کو بتایا کہ اپوزیشن اس قانون پر سیاست کر رہی ہے۔ جبکہ ہم نے اس قانون کے لیے رولز آف بزنس ترتیب دے  کر محکمہ انسانی حقوق و اقلیتی امور کو بھیج دیے ہیں۔ اس کے بعد وزارت قانون کو جائیں گے اور جنوری 2021 میں ہونے والے اسمبلی اجلاس میں پیش کیے جانے کے بعد قانون کو منظور کروا لیا جائے گا۔

سکھ برداری کی پبلک پرائیویٹ پاٹنرشپ کے تحت شادیاں

رکن پنجاب اسمبلی سردار مہندر پال سنگھ نے بتایا کہ ’اس ایکٹ کے نافذ العمل ہونے کے بعد اگلے مہینے 21 فروری 2021 کو ہمارے شہید بھائی کی یاد میں 100 سالہ شہیدی دن منایا جائے گا۔ اس دن کو سکھ برداری میں مذہبی اہمیت حاصل ہے۔ اس روز ننکانہ صاحب گورداوارے میں غریب سکھ برداری کے لوگوں کی اجتماعی شادی پبلک پرائیویٹ پاٹنرشپ کے تحت کروائی جائے گی۔

پاکستان سکھوں کی شادیوں کی رجسٹریشن کے حوالے سے قانون سازی کرنے والا دنیا کا پہلا ملک بن گیاہے۔ صوبہ پنجاب میں ابھی تک اِس قانون پر عمل درآمد نہیں ہو سکا جو گزشتہ دور حکومت میں سکھوں کی شادیوں سے متعلق بنایا گیا تھا۔ ن لیگ کے اقلیتی رکن صوبائی اسمبلی رمیش سنگھ  اروڑا جو اس وقت پارلیمانی سیکرٹری تھے انہوں نے ہی یہ بل اسمبلی میں جمع کروایا تھا۔

متعلقہ تحاریر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے