کیا یہ الیکٹرانک اور ڈجیٹل میڈیا کے درمیان جنگ کا نکتہ آغاز ہے؟

ملک میں روایتی میڈیا اور ڈجیٹل میڈیا کے دو صحافیوں نے ایک دوسرے پر جو الزامات لگائے ہیں اُس سے ذرائع ابلاغ کی دونوں شاخوں کے درمیان خلیج واضح ہے۔

جنگ گروپ سے وابسطہ سینئر صحافی و اینکر پرسن حامد میر اور یوٹیوبر صدیق جان کے درمیان جاری الزامات کی جنگ نے الیکٹرانک اور ڈجیٹل میڈیا میں دراڑ پیدا کردی ہے۔

رواں ماہ 6 جنوری کو وزیراعظم عمران خان سے پاکستانی یوٹیوبرز اور میڈیا نمائندگان کے وفد نے ملاقات کی۔ جس کے بعد 7 جنوری بروز جمعرات کو روزنامہ جنگ کے سینئر صحافی حامد میر نے ایک کالم لکھا جس میں دعویٰ کیا کہ کچھ بےروزگار صحافیوں اور نوجوانوں کو سوشل میدیا پر بعض سیاستدانوں اور صحافیوں کی کردار کشی کرنے کی نوکری دی گئی ہے۔ ان میں سے ایک نوجوان ایسا بھی ہے جو روزگار کا واسطہ دے کر اُن  سے اُن ہی کی کردار کشی کی اجازت مانگنے آگیا۔ حامد میر نے لکھاکہ ’پہلے تو میں ہنسا لیکن پھر اجازت دیدی۔‘

جس کے بعد حامد میر کے دعوے کو صدیق جان نے جھوٹ قرار دیا۔ یوٹیوب پر جاری ویڈیو میں انہوں نے کہا کہ اگر حامد میر کا دعویٰ سچ ہے تو وہ اس یوٹیوبر کا نام بتائیں جس کو یہ ٹاسک دیا گیا ہے۔ اگر وہ اس کا نام بتا پائے تو صدیق جان ان سے معافی بھی مانگ لیں گے۔

صدیق جان نے کہا کہ ’حامد میر کے ایسے کئی جھوٹ ہیں جو ہم نے بے نقاب ہوچکے ہیں۔ ان سے کوئی بھی بات پوچھی جائے تو وہ کہتے ہیں کہ یہ تو مجھے پہلے سے پتہ تھا یا ایسے شخص سے متعلق کوئی انکشاف کردیتے ہیں جو دنیا میں ہی موجود نہ ہو اور انکشاف کی تصدیق نہ ہوسکے۔‘

یہ بھی پڑھیے

نیوز چینلز نے ٹی وی کو ایڈیٹ باکس بنا دیا

بعد ازاں یوٹیوبر صدیق جان نے ٹوئٹر پیغام میں لکھا کہ وزیراعظم عمران خان صاحب سے یوٹیوبرز کی ملاقات کی مکمل تفصیلات جلد سامنے آجائیں گی۔ جن کو تکلیف ہورہی ہے وہ تسلی رکھیں ان کی تکلیف کی وجہ بھی سب جانتے ہیں۔

صدیق جان نے مزید لکھا کہ یوٹیوبرز کے خلاف کالمز اور ٹوئٹر پر چیخیں بتا رہی ہیں کہ چوٹ بالکل ٹھیک جگہ پر جاکر لگی ہے۔ اِس ساری صورتحال کو تجزیہ کارذرائع ابلاغ کی دونوں شاخوں الیکٹرانک اور ڈجیٹل میڈیا کے درمیان ایک جنگ کا نکتہ آغاز قرار دے رہے ہیں۔

متعلقہ تحاریر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے