خواتین پر گھریلو تشدد کی روک تھام کا بل خیبرپختونخوا میں بھی منظور

بل کی منظوری کے بعد خواتین پر تشدد کرنے والوں کو 5 سال تک قید کی سزا ہوگی۔

 خواتین پرگھریلو تشدد کی روک تھام کا بل طویل عرصے زیر التوا رہنے کے بعد خیبرپختونخوا اسمبلی میں بھی منظورکرلیا گیا ہے۔ بل پر گزشتہ حکومتوں سمیت پاکستان تحریک انصاف نے بھی کافی وقت لیا اور کمیٹی تشکیل دے کر مسلسل 2 سال تک بل کی منظوری کے لیے کام کیا۔

صوبائی وزیر سماجی بہبود ڈاکٹرہشام انعام اللہ خان نے بل اسمبلی میں پیش کیا اور بتایا کہ خواتین پر گھریلو تشدد کی روک تھام کے بل کو اسمبلی سے منظورکرکے صوبے کےلیے باقاعدہ قانون بنا دیا گیا ہے۔ جہاں صوبائی وزیرقانون سلطان محمد خان نے دن رات محنت کر کے اس بل کی منظوری کو یقینی بنایا وہیں حکومت اور اپوزیشن کی خواتین اراکین اسمبلی کا کردار بھی کافی نمایاں رہا۔

انہوں نے کہا کہ ‘بل کی منظوری موجودہ حکومت کی کامیابی ہے۔ یہ خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایسا اقدام ہے جو پاکستان کی گزشتہ 72 سالہ تاریخ میں نہیں لیا گیا تھا’۔

بل سے متعلق بات کرتے ہوئے صوبائی وزیر قانون سلطان محمد خان نے 360 کو بتایا کہ ‘خواتین پر گھریلو تشدد نہ صرف اسلامی رو کے منافی ہے بلکہ قومی اور بین الاقوامی قوانین کی بھی خلاف ورزی اور خواتین کے استحصال کے مترادف ہے۔ لیکن بدقسمتی سے صوبائی سطح پر ان کے لیے موثر قانون موجود نہیں تھا جو اب بن گیا ہے’۔

مشتاق احمد غنی

خواتین اراکین اسمبلی نے بل کی منظوری کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ بل کے تحت خواتین پر تشدد کرنے والے لوگوں کے لیے جن سزاؤں کو قانون کا حصہ بنایا گیا ہے اُن کے ڈر سے بھی خواتین پر تشدد کے کیسز میں کمی آئے گی۔

اس بل کی منظوری کے بعد خواتین پر تشدد کرنے والوں کو 5 سال تک قید کی سزا ہوگی۔ جبکہ بل میں خواتین پر معاشی، نفسیاتی و جنسی دباؤ کو بھی تشدد قرار دے دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیے

جنسی طور پر ہراساں کرنا ایک عام بات بن گئی ہے؟

اس بل کے بعد قانون کی روشنی میں ضلعی تحفظاتی کمیٹی بنائی جائے گی جو متاثرہ خاتون یا خواتین کو طبی امداد، پناہ گاہ اور معقول معاونت فراہم کرے گی۔

دوسری جانب گھریلو تشدد کے واقعات کی رپورٹ کے لیے ہیلپ لائن بھی قائم کی جائے گی۔ کسی بھی خاتون پر تشدد ہونے کی صورت میں 15 دن کے اندر عدالت میں درخواست جمع کرائی جائے گی اور عدالت کیس کا فیصلہ 2 ماہ میں سنانے کی پابند ہوگی۔

عوامی حلقوں نے  بھی اس قانون کو سراہتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ اس قانون سے خواتین پر گھریلو تشدد جیسے قبیح عمل پر کافی حد تک قابو پالیا جائے گا۔

متعلقہ تحاریر