اقرار الحسن سے معافی کا مطالبہ کیوں کیا جا رہا ہے؟

اقرار الحسن نے انڈیا سے موازنہ کرتے ہوئے پاکستان پر تنقید کی تھی۔

معروف اینکر پرسن اقرار الحسن کے خلاف ٹوئٹر پر ٹرینڈ چل پڑا ہے۔ صارفین ‘اقرار قوم سے معافی مانگو’ کا ہیش ٹیگ استعمال کرتے ہوئے ٹوئٹس کر رہے ہیں۔ 

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پرمعروف اینکر پرسن اقرارالحسن نے انڈین نشریاتی ادارے این ڈی ٹی وی کی ایک ٹوئٹ شیئر کی جس میں انڈیا کی ٹرانسپورٹ کا نظام دکھایا گیا تھا۔ انہوں نے اس ٹوئٹ کے ساتھ پاکستان کی ایک بس کی تصویر شیئر کی اورساتھ ہی ‘انڈیا بمقابلہ پاکستان’ لکھا۔ اس ٹوئٹ کے ذریعے اقرار الحسن نے انڈیا کے ٹرانسپورٹ کے نظام کا موازنہ کرتے ہوئے پاکستان پرطنزیا تنقید کی تھی۔

جس کے بعد ایک اور ٹوئٹ میں انہوں نے کرونا ویکسین سے متعلق انڈیا کی تعریف اور پاکستان پر تنقید کی۔

اقرار الحسن کی ٹوئٹس کے بعد ٹوئٹر پر تو جیسے ہنگامہ ہی برپا ہوگیا ہے۔ صارفین کی بڑی تعداد نے ان سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے اور ان کے خلاف ‘اقرار قوم سے معافی مانگو’ کا ہیش ٹیگ استعمال کرتے ہوئے اتنے ٹوئٹس کیے ہیں کہ پاکستان میں یہ ٹوئٹر ٹرینڈ بن گیا۔

ایک صارف نے اقرار الحسن کی تنقید کا جواب دیتے ہوئے ایک تصویر شیئر کی جس میں انڈیا اور پاکستان کا موازنہ کیا گیا ہے۔ تصویر میں ایک طرف پاکستانی حکمرانوں کو دعوت اڑاتے دکھایا گیا ہے تو دوسری جانب انڈیا میں سڑکوں پر سوتے ہوئے لوگوں کو۔ صارف نے تصویر کے ساتھ ‘انڈیا بمقابلہ پاکستان’ لکھتے ہوئے بتایا کہ انڈیا میں 3 کروڑ لوگ سڑکوں پر سوتے ہیں۔

سعدیہ بٹ نامی صارف نے لکھا کہ ‘انڈیا میں 78 ملین افراد کچی آبادیوں میں رہتے ہیں، 1.2 بلین افراد بیت الخلا کی سہولت سے محروم ہیں۔ یہ سب سے بڑا نسل پرست ملک ہے، خواتین کے لیے یہ ایک خطرناک ترین ملک ہے’۔

سید مبشر نامی صارف نے لکھا کہ ‘انڈین میڈیا نے آپ کو یہ بکواس کرنے کے لیے کتنے پیسے دیئے ہیں؟’۔

جہاں ایک طرف ٹوئٹر صارفین اقرار الحسن پر تنقید کر رہے ہیں وہیں صارفین کی بڑی تعداد نے ان کے حق میں ‘وی سپورٹ اقرار’ نامی ٹوئٹر ٹرینڈ چلایا ہے۔ معروف صحافی اور اینکر پرسن ارشد شریف نے اقرارالحسن کی حمایت کرتے ہوئے ٹوئٹر پر لکھا کہ ‘اقرار الحسن کی ٹوئٹ کا عام شہریوں کے لیے آواز اٹھانے کا یہ عمل ایک دن ضرور رنگ لائے گا’۔

صحافی منیزے جہانگیر نے اقرارالحسن کی حمایت کرتے ہوئے لکھا کہ ‘جب پوری دنیا کرونا ویکسین کے لیے محنت کر رہی ہے ہم نے کوئی کوشش بھی نہیں کی۔ اس کی وجہ غلط ترجیحات ہیں۔ ہتھیاروں اور دفاع کے بجائے صحت اور تعلیم کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے’۔

معروف سوشل میڈیا ایکٹوسٹ پروفیسر ڈاکٹرعمارعلی جان نے منیزے جہانگیر کا اقرار الحسن کی حمایت میں کیا گیا ٹوئٹ شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ‘اقرار الحسن کی جانب سے نظام کی نا اہلیوں کی نشاندہی پران کے خلاف ٹرینڈ چلانا قابل افسوس ہے۔ ہمیں ناقدین پر حملہ کرنے کی بجائے ان کی بات سننی چاہیے’۔

چند روز قبل انڈین صحافی ارناب گوسوامی کی گفتگو لیک ہوئی تھی جس میں پلوامہ حملے اورنام نہاد بالاکوٹ سرجیکل اسٹرائیک سے متعلق حیران کن انکشافات کیے گئے تھے۔ پاکستان میں ارناب گوسوامی کا بھی ٹوئٹر ٹرینڈ چل پڑا تھا اور صارفین انڈیا پر شدید تنقید کر رہے تھے۔

متعلقہ تحاریر