”شہر ٹرانسپورٹ کے لحاظ سے مکمل تباہ ہوچکا ہے‘‘

گذشتہ 15 سالوں سے شہر میں سرکلر ریلوے کا منصوبہ بحال نہیں ہوپایا ہے کیونکہ ریلوے کی پٹڑیوں پر شہر کے کئی علاقوں میں قبضہ ہو گیا ہے جسے یا تو صو بائی حکومت چھڑانا نہیں چاہتی یا پھر اُس کام میں سنجیدہ نہیں ہے۔

پاکستان کے شب سے بڑے شہر کراچی کے عوام ناقص ترین زرائع آمدوفت کی وجہ سے پرانی اور کھٹارا بسوں کی چھتوں پر سفر کرنے پر مجبور ہیں۔ عالمی جریدے بلوم برگ نے حال ہی میں کراچی کو دنیا میں بدترین پبلک ٹرانسپورٹ کا حامل شہر قرار دیا ہے۔ اِسی شہر کراچی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ملک کے لیے نصف سے زائد آمدنی کماتا ہے لیکن سیاسی طور پر یتیم بھی ہے۔

عالمی جریدے بلوم برگ نے اپنی حالیہ رپورٹ کہا ہے کہ کراچی کی 42 فیصد آبادی کئی دہائیوں پرانے ٹرانسپورٹ کے نظام پر انحصار کرتی ہے۔ ایک جانب سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں جبکہ شہر میں ٹریفک سِگنلز کا نظام بھی خود کار انداز میں کام نہیں کرتا۔ شہر قائد کہلانے والا شہر کراچی پاکستان کی کُل آمدنی کا آدھے سے زیادہ حصہ کماتا ہے۔

کراچی کے سابقہ میئرز اور ناظمین کہتے رہے ہیں کہ اُن کے پاس شہر کے صرف کچھ ہی حصے کا کنٹرول موجود ہے۔ زیادہ تر حصے کا انتظام وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے تحت چلنے والے اداروں کے پاس ہے۔

صوبہ سندھ کی حکومت ازخود ٹرانسپورٹ کے بڑے منصوبے نہیں بنا پائی ہے۔ وفاق نے گذشتہ برس 162 ارب روپے کے منصوبے کا اعلان کیا تھا جس کے بارے میں شہری حکومتی کہتی ہے کہ اُس مد میں کوئی پیسہ جاری نہیں کیا گیا۔ وفاقی حکومت کا دعوی ہے کہ 24 ارب 65 کروڑ رواں سال جون تک خرچ کرچکی ہے اور 17 ارب 90 کروڑ اگلے سال کے لیے مختص کرنے کا کہا جارہا ہے۔

گذشتہ 15 سالوں سے شہر میں سرکلر ریلوے کا منصوبہ بحال نہیں ہوپایا ہے کیونکہ ریلوے کی پٹڑیوں پر شہر کے کئی علاقوں میں قبضہ ہو گیا ہے جسے یا تو صو بائی حکومت چھڑانا نہیں چاہتی یا پھر اُس کام میں سنجیدہ نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیے

سندھ کے سرکاری بس اڈوں پر نجی ٹرانسپورٹرز کاقبضہ

کراچی کے یہ علاقے کسی زمانے میں سرکلر ریلوے کے ذریعے بہت اچھی طرز پر آپس میں منسلک تھے۔ لیکن اُس کے بعد حکومتی کی عدم دلچسپی کے باعث بدعنوانی اور بدانتظامی کا عفریت پروان چڑھا اور ٹرانسپورٹ کا نظام نجی شعبے کے پاس چلا گیا۔

 

نجی شعبے نے شہر میں نرم قوانین اور حکومت کی عدم دلچسپی کا فائدہ اُٹھایا اور اِس شعبے میں عوام کے آرام اور آسانی کو پس پشت ڈال کر صرف منافع کمانے کا کام جاری رکھا۔

اس حوالے سے سپریم کورٹ نے حکم جاری کیا کہ سرکلر ریلوے کو بحال کیا جائے۔ انتظامیہ نے کچھ آپریشن ضرور کیے لیکن اُس کے بعد منصوبے کو تقریباً بھلا دیاہے۔

نجی شعبے کے تحت ہی سہی ٹرانسپورٹ کا جو نظام فی الحال موجود ہے اُس میں بدترین اور کٹھارا بسیں کراچی کی سڑکوں پر چلائی جاری ہیں۔ بسوں کے پاس روٹ پرمٹ نہ ہونے کے برابر ہے، اگر ہے بھی تو جس روٹ پر 10 بسوں کا پرمٹ ہے وہاں 20 چلائی جا رہی ہیں۔ بسوں کی نگرانی کا نظام بھی کرپشن کا شکار ہے۔

صوبائی وزیر اویس شاہ نے گذشتہ سال 2019ء میں اعلان کیا تھا کہ کراچی کو 2 ماہ کے اندر بسیں دی جائیں گی۔ اس حوالے سے ڈائیوو سے معاہدہ کیا گیا ہے۔ پہلے فیز میں 200 بسیں لائی جائیں گی۔

لیکن ایک سال گزرنے کے باوجود بسیں کراچی کی سڑکوں پر نظر نہیں آئیں۔ اویس شاہ کا اب یہ کہنا ہے کہ کراچی میں بسیں نہ آنے کی وجہ وفاقی حکومت ہے۔ ملکی معیشت بہتر نہ ہونے کے باعث کمپنیاں بھاگ رہی ہیں۔ ڈائیوو سے اس حوالے سے بات ہوئی، بتایا گیا کہ ملکی معیشت ٹھیک نہ ہونے کے باعث ابھی بسیں چلانا خطرے سے کم نہیں۔

ٹرانسپورٹ اتحاد کے صدر ارشاد بخاری کا کہنا تھا کہ کراچی میں آبادی کے لحاظ سے کم از کم 40 سے 50 ہزار بسیں چلنی چاہئیں ہیں۔ لیکن اس وقت بمشکل 5 سے 7 ہزار بسیں چل رہی ہیں۔ ”شہر ٹرانسپورٹ کے لحاظ سے مکمل تباہ ہوچکا ہے۔‘‘

کراچی کے شہریوں کا کہنا ہے کہ شہر کو اس حال میں پہنچانے کی ذمہ دار حکومت ہے۔ کراچی سے سوتیلی ماں والا سلوک کیا گیا۔ سیکریٹری پلاننگ اینڈ ڈولپمینٹ کے مطابق سندھ حکومت اپنے ریسورسز سے کام کر رہی ہے۔

جبکہ نفسیات کے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس دھول مٹی، ٹرانسپورٹ کی حالت اور شہر کی سڑکوں کو دیکھ کر ہر انسان پر ذہنی دباؤ بڑھتا ہے۔ عوام کے لیے اگر سفر میں آسانی ہوتی تو کئی لوگ بلڈ پریشر کے امراض میں مبتلا نہ ہوتے۔

کراچی کا ہر شہری جلدی میں ہوتا ہے۔ بائیک والا اکثر دو منٹ انتظار نہیں کرتا۔ اس سے اندازا لگائیں کہ آخر انہیں کتنی جلدی ہوتی ہے۔ عوام کی آسانی کے لیے بہتر سفری سہولیات فراہم کی جائیں۔

متعلقہ تحاریر