پارلیمنٹ میں متاثرین بنگلا دیش کی متروکہ املاک کی فروخت کا معاملہ

غیر قانونی قبضے والی املاک نیلامی کا ارادہ ہے۔وزیر مملکت کا اعتراف۔ متروکہ املاک فروخت نہ کی جائیں ایم کیو ایم کی ضد

متحدہ قومی موومنٹ نے اپنی اتحادی جماعت اور وفاقی حکومت پرغیر قانونی طور پرمتاثرین بنگلا دیش کی 50 ارب روپے کی متروکہ املاک فروخت کرنے کا الزام لگایا ہے۔ جبکہ وفاقی حکومت کا موقف ہے کہ غیر قانونی قابضین کے پاس موجود ایسی متروکہ املاک نیلام کی جائیں گی جن کا کوئی دعویدار نہیں ہے۔

قائمہ کمیٹی کا وفاقی حکومت کے موقف پر عدم اطمینان

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے بھی وفاقی حکومت کے فیصلے پر عدم اطمینان کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ 50 ارب روپے کی متروکہ املاک 1971 کے متاثرین کو دی جائیں۔

متحدہ قومی موومنٹ کے رکن قومی اسمبلی اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے کابینہ سیکرٹیریٹ میں اس توجہ دلاؤ نوٹس کے محرک  اسامہ قادری نے نیوز 360 سے گفتگو میں بتایا کہ کراچی اور اسلام آباد میں متاثرین بنگلا دیش کی 50 ارب روپے کی متروکہ املاک موجود ہیں۔ جنہیں حکومت 6 ارب مالیت بتا کر نیلام کرنا چاہتی ہے۔

متروکہ املاک پر ان افراد کا حق ہے جنہوں نے بنگلا دیشی شہریت پر پاکستانی شہریت کو ترجیح دی اور ملک میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں یا بنگلا دیش سے وطن آنے کے منتظر ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

قومی اسمبلی کا اجلاس رواں ماہ بلانا حکومت کا امتحان

متاثرین بنگلادیش کی متروکہ املاک کی فروخت پر پابندی عائد

انہوں نے کہا کہ قائمہ کمیٹی کابینہ سیکریٹیریٹ نے متروکہ املاک کی فروخت پر پابندی عائد کر رکھی ہے لیکن اُس کے باوجود نیلامی کے حکومتی فیصلے سے کمیٹی ارکان کا استحقاق مجروح ہوا ہے اور قائمہ کمیٹی نے برہمی کا اظہار کیا ہے۔ اسامہ قادری نے کہا کہ حکومت کو اے پی او ایکٹ کے تحت متروکہ املاک فروخت کرنے کا اختیار ہی نہیں ہے۔ متروکہ املاک پاکستان کی بنگلا دیش میں یا بنگلا دیش کی پاکستان میں ہوں دونوں ممالک کی حکومتیں ان املاک کو فروخت کرنے کا حق نہیں رکھتیں۔

اسامہ قادری نے بتایا کہ قائمہ کمیٹی کی چیئرپرسن  کشور زاہرہ واضح طور پر کہہ چکی ہیں کہ یہ فیصلہ کسی صورت قبول نہیں۔ کمیٹی نے متفقہ فیصلہ کیا ہے کہ متروکہ املاک سے متعلق محکمہ کو بند نہ کیا جائے اور جائیدادیں فروخت کرنے کی بجائے 1971 کی متاثرین کو دی جائیں جنہوں نے سقوط ڈھاکا کے بعد پاکستانی شہریت کا انتخاب کیا تھا۔

کابینہ کمیٹی کے سامنے معاملہ اٹھانے کا فیصلہ

کمیٹی نے اس معاملے کو ادارہ جاتی اصلاحات کے عمل کی نگرانی کرنے والی کابینہ کمیٹی کے سامنے اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ کمیٹی کی چیئرپرسن اور چند ارکان کابینہ کمیٹی کے اجلاس میں شریک ہوں گے۔

حکومت کا موقف کیا ہے؟

وفاقی وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان  کا نیوز 360 سے خصوصی گفتگو میں کہنا تھا کہ متروکہ املاک کے معاملے پر حکومت قانون اور آئین سے بالاتر کوئی قدم نہیں اٹھائے گی۔ اگر متروکہ املاک پر لوگوں نے دہائیوں سے قبضہ کرکے بنگلے اور شاپنگ سنٹر بنا لیے ہیں تو کیا حکومت کو یہ حق حاصل نہیں کہ  وہ ان غیر قانونی قبضوں کو ختم کرکے متروکہ املاک کی نیلامی کرے؟

علی محمد خان نے نیوز 360 کو دیے جانے والے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ’نیلامیوں سے حاصل ہونے والی رقم عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کی جائے گی۔ قائمہ کمیٹی برائے کابینہ سیکریٹیریٹ نے بھی اس معاملے کا نوٹس لیا ہے۔ میں نے انہیں یقین دہانی کرائی ہے کہ حکومت قانون سے ماورا کوئی قدم نہیں اٹھائے گی۔ متروکہ املاک کا کوئی مالک یا دعویدار ہے تو اس کی حق تلفی نہیں ہوگی۔‘

متعلقہ تحاریر