پاکستانی صحافیوں کو مالکان کے غیر منصفانہ سلوک کا سامنا

منگل کو نوائے وقت گروپ سے وابستہ سینئر رپورٹر کو ملازمت سے برخواست کردیا گیا۔

پاکستان میں میڈیا اداروں سے صحافیوں کو بغیر نوٹس کے فارغ کرنا اب کوئی نئی بات نہیں رہی۔ منگل کو نوائے وقت گروپ سے وابستہ سینئر رپورٹر نواز رضا کو ملازمت سے برطرف کردیا گیا ہے۔

نواز رضا نوائے وقت گروپ سے گزشتہ 45 برس سے وابستہ تھے جنہیں منگل کو طلب کر کے ملازمت سے برطرفی کا نوٹس تھمادیا گیا۔

اس فیصلے پر وہ اتنے مایوس ہوئے کہ کسی ساتھی سے بات کیے بغیر آنکھوں میں آنسو لیے رخصت ہو گئے۔ یہ کوئی نیا واقعہ نہیں ہے جب پاکستان میں ایک تجربہ کار صحافی کو مالکان کے ایسے سلوک کا سامنا کرنا پڑا ہو۔

پاکستان میں زرائع ابلاغ کے اداروں کے مالکان صحافیوں کی عمر اور تجربے سے قطع نظر انہیں جب جاہیں بےروزگار کردیتے ہیں۔ ایسا ہی یک واقعہ پاکستان کے ایک اور نجی ٹی وی چینل سماء ٹی وی میں بھی پیش آیا جس نے اپنے سینئر ترین کارکنان کو اچانک برطرف کر دیا۔ اِن میں چند تو ایسے کارکنان تھے جو اِس چینل سے کافی عرصے سے وابستہ تھے۔

برطرف کیے جانے والے سماء نیوز کے کراچی کے بیوروچیف فیصل شکیل نے نیوز 360 کو بتایا ہے کہ ادارے میں صحافیوں سے بینک کے  ملازمین کی طرح 8 گھنٹے لازمی آفس میں رہنے کی پابندی عائد کی گئی ہے۔   حالانکہ صحافت خصوصاً رپورٹنگ کے شعبے میں دفتری کام کو برا سمجھا جاتا ہے اور رپورٹر کو فیلڈ میں رہنے والا شخص سمجھا جاتا ہے۔

 سماء کے سابق بیورو چیف فیصل شکیل نے بتایا ہے کہ صحافیوں سے من پسند خبریں بنوائی جا رہی ہیں۔ ’اگر پیپلز پارٹی نے کوئی اچھا کام کیا ہے تو اُس کی کوئی خبر نہیں بنانے دی جاتی بلکہ کہا جاتا ہے کہ کوئی خامی والی خبر ڈھونڈھ کرلاؤ وہی چلائیں گے۔‘

اِس کے علاوہ سماء ٹی وی کے سابق بیورو چیف نے وہاں من پسند افراد کی تنخواہوں میں اضافے کی شکایت بھی کی ہے۔  اُنہوں نے بتایا ہے کہ ’جوصحافی ایمانداری اور سچائی سے کام کر رہا ہے اُن کو تنگ کیا جا رہا ہے۔‘

ایک جانب تو میڈیا مالکان پیسوں کی تنگی، حکومت کے اشتہاروں کی ادائیگی رکنے اور بگڑتی معاشی صورتحال کا رونا روتے ہیں دوسری جانب برطرف صرف اُن افراد کو کیا جاتا ہے جن کی تنخواہیں کم ہوتی ہیں۔ جبکہ ایسے اعلی اور منظور نظر افراد پر اِس صوتحال کا کوئی اثر نہیں پڑتا جو  اعلی عہدوں پر فائز ہوتے ہیں اور خطیر رقم بطور تنخواہ لیتے ہیں۔ سماء ٹی وی میں بھی ایسا ہی ہوا ہے جہاں کارکردگی یا معاشی بدحالی کی برق صرف کارکنان پر گری ہے جبکہ مالک کے مشیر، حالات حاضرہ کے سربراہ، نیوز کے سربراہ اور اُن کے قریبی ساتھی اِس سے محفوظ رہے ہیں۔  میڈیا کے اداروں کے مالکان اعلیٰ عہدوں پربراجمان پسندیدہ افراد کو پریشان کرنے سے پرہیز کرتے ہیں اور یہ افراد صحافتی انجمنوں اور صحافی رہنماؤں سے گٹھ جوڑ بنائے رکھتے ہیں تاکہ ممکنہ طور پر کسی احتجاج سے بچا جا سکے۔

یہ بھی پڑھیے

سینئر صحافی انصار عباسی کی فروحی معاملات میں دلچسپی

 

متعلقہ تحاریر