گومل جامعہ ہے یا جنسی ہراسگی کا مرکز ؟

اس سے قبل جامعہ میں جنسی ہراسگی کا الزام ثابت ہونے پر 2 پروفیسرز، اسسٹنٹ پروفیسر، سپروائزر اور لیبارٹری اٹینڈنٹ کو برطرف کیا جاچکا ہے۔

پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے تعلیمی اداروں میں طالبات کو ہراساں کرنے کے واقعات دن بہ دن بڑھتے جارہے ہیں۔ ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں جنسی ہراسگی کے الزام میں جامعہ گومل کے ایک اور استاد کو نوکری سے برطرف کردیا گیا ہے۔

رجسٹرار گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان کے دفتر سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق شعبہ سیاسیات کے اسسٹنٹ پروفیسرمحمد زبیرکو برطرف کیا گیا ہے۔ انکوائری میں جرم ثابت ہونے پرفیصلہ سنڈیکیٹ کے 106ویں اجلاس میں کیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ جامعہ گومل میں جنسی ہراسگی پر برطرفی کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ مارچ 2020 میں جامعہ گومل میں جنسی ہراسگی میں ملوث 4 ملازمین کو نوکری سے برطرف کیا گیا تھا۔ جنسی ہراسگی کے الزام میں فارغ کیے جانے والے ملازمین میں پروفیسر ڈاکٹر بختیار خان، اسسٹنٹ پروفیسر عمران قریشی، حکمت اللہ گیم سپروائزر اور حفیظ اللہ لیبارٹری اٹینڈنٹ شامل تھے۔

جبکہ جون 2020 میں اور جنسی ہراسگی کے الزام میں پروفیسر ڈاکٹر صلاح الدین کو بھی ملازمت سے برطرف کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

پشاور میں طالبات کا ہراسگی کے خلاف احتجاج

دوسری جانب صوبہ خیبرپختونخوا کے درالحکومت پشاور میں گزشتہ چند سالوں میں متعدد جامعات کے اساتذہ کے خلاف جنسی ہراسگی کی شکایات درج کی گئی ہیں اور بیشتر کو باقاعدہ تحقیقات کے بعد ملازمتوں سے برطرف کیا گیا ہے۔ اِس معاملے میں تاحال ایسے اقدامات نہیں کیے گئے ہیں جن سے اِن واقعات میں ملوث افراد کو کڑی سزا دی جاسکے۔

خیبرپختونخوا میں ہراسگی کے واقعات سب سے پہلے 2010ء میں رپورٹ ہونا شروع ہوئے اور اب اِن کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ نومبر 2020 میں اسلامیہ کالج یونیورسٹی کی طالبات نے انتظامیہ کے خلاف احتجاجی ریلی بھی نکالی تھی۔ مظاہرین نے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ یونیورسٹی میں سمسٹر، ریسرچ تھیسز اور زیادہ نمبروں کی لالچ دے کر ہراساں کرنے کے سلسلے کو ختم کرنے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔

متعلقہ تحاریر