31 جنوری گزر گئی پی ڈی ایم نے استعفے دیئے نا ہی وزیر اعظم نے
پی ڈی ایم کے اندرونی اختلافات کی وجہ سے استعفوں کا معاملہ کھٹائی کی نذر ہوگیا۔
31 جنوری گزر چکی ہے نا تو حزب اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے استعفے دیئے ہیں اور نا ہی وزیر اعظم مستعفی ہوئے ہیں۔ ڈیڈلائن گزر جانے کے باوجود دعوے اور اعلانات ہوا میں اڑتے نظر آ رہے ہیں۔
پی ڈی ایم کی وزیراعظم کو عہدے سے ہٹانے کی کوششیں بظاہر ناکام نظر آرہی ہیں کیونکہ حزبِ اختلاف جماعتوں کے اتحاد کی جانب سے دی گئی ڈیڈلائن گزر چکی ہے۔ پی ڈی ایم کا کہنا تھا کہ ڈیڈلائن تک یا تو وزیراعظم استعفیٰ دیں گے یا پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں مشترکہ طور پر استعفے دے کر حکومت کو ختم کریں گی۔ لیکن دونوں جانب سے تاحال کوئی استعفیٰ نہیں آیا ہے۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری پیغام میں پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کو عزت کے ساتھ مستعفی ہونے کا موقع دیا تھا لیکن انہوں نے گنوا دیا۔ اب پی ڈی ایم کے اجلاس میں آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔
The people face historic, poverty, unemployment & inflation because this govt was forced on them. The joint opposition must now force the removal of puppets. PPP believes in relying on democratic tactics. Sustained joint efforts inside & outside parliament will ultimately succeed
— BilawalBhuttoZardari (@BBhuttoZardari) January 31, 2021
بلاول بھٹو نے کہا کہ ‘لانگ مارچ یا تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ 4 فروری بروز جمعرات کو پی ڈی ایم کے اجلاس میں کیا جائے گا۔’
انہوں نے کہا کہ ‘حکومت کی مایوسی اور سینیٹ الیکشن میں شکست نظر آرہی ہے۔ سینیٹ الیکشن سے معلوم ہوجائے گا کہ حکومت کتنی کمزور ہے۔’
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس سے پہلے بلاول بھٹو نے ہی لانگ مارچ میں شرکت کرنے کے بجائے تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کے لیے وہ اتحادیوں کو بھی منائیں گے۔
یہ بھی پڑھیے
پیپلزپارٹی نے پی ڈی ایم کے ساتھ ہاتھ کردیا
واضح رہے کہ تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان کر کے پاکستان پیپلزپارٹی پہلی بار اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹی ہے بلکہ اس سے قبل پیپلزپارٹی پی ڈی ایم کے فیصلہ پرقومی اسمبلی سے مشترکہ استعفوں سے بھی پیچھے ہٹی تھی۔ جس کے بعد سینیٹ انتخابات میں بھی حصہ لینے کا فیصلہ کیا تھا جسے پی ڈی ایم نے تسلیم کیا۔
دوسری جانب وزیراعظم کے معاون خصوصی شہباز گل نے پی ڈی ایم کی دھمکیاں یاد دلاتے ہوئے طنزیہ ٹوئٹ کیا۔ انہوں نے لکھا کہ آر یا پار، استعفے منہ پر ماریں گے، لات مار کر حکومت گرا دوں گا اور ہمارے استعفے ایٹم بم ثابت ہوں گے کے بعد پیش خدمت ہے عمران خان استعفیٰ دینے میں ناکام ہوگئے ہیں۔
آر یا پار
استعفے منہ پر ماریں گےلات مار کر حکومت گرا دونگا
ہمارے استعفے ایٹم بم ثابت ہوں گے
کے بعد پیش خدمت ہے
عمران خان استعفیٰ دینےمیں ناکام ہو گئے ہیں
اللّٰہ دے نام تے استعفیٰ منگ کے ٹرائی کر لئو ہن https://t.co/mHacAfB13S
— Dr. Shahbaz GiLL (@SHABAZGIL) January 31, 2021
جبکہ وفاقی وزیر برائے ترقی و منصوبہ بندی اسد عمر نے ٹوئٹر پر جاری پیغام میں پی ڈی ایم کو طنز کرتے ہوئے کہا ہے کہ ‘سنا تھا کہ آج کوئی استعفیٰ آنے والا ہے۔’
سنا تھا آج کوئی استعفیٰ آنے والا ہے 🤔 چلو جو ہم سے مانگے تھے اور جو کبھی ملنے نہیں تھے وہ چھوڑو، وہ جو مرتضیٰ عباسی وغیرہ کے منہ پر مارنے تھے وہ کہاں گئے؟؟؟ کہیں اپنے ہی منہ پر تو نہیں مار لئیے…..#استعفی_عمران_کا_ہاہاہاہا
— Asad Umar (@Asad_Umar) January 31, 2021
ادھر وزیراعظم عمران خان بظاہر پر اعتماد نظر آرہے ہیں کیونکہ وہ آغاز ہفتہ عوام سے براہ راست رابطے کریں گے جس میں عوام کے مسائل سنیں گے اور ملکی صورتحال سے متعلق آگاہی فراہم کریں گے۔
یکم فروری بروز پیر شام ۴ بجے وزیراعظم پاکستان عمران خان عوام سے ٹیلیفون پر بذات خود بات کریں گے pic.twitter.com/YT05M4cmlc
— Senator Shibli Faraz (@shiblifaraz) January 31, 2021
تمام صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ حزبِ اختلاف کی ناکامی نظر آرہی ہے کیونکہ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے حکومت کو 31 جنوری مستعفی ہونے کی ڈیڈلائن دی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ مذکورہ تاریخ تک حکومت نے استعفیٰ نہیں دیا تو یکم فروری کو حزبِ اختلاف کی جماعتیں مستعفی ہوجائیں گی اور لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کیا جائے گا۔