ہاکس بے پر بنے ہٹس مسمار کرنے کا حکومتی فیصلہ
سندھ حکومت نے ساحل پر 3 اسٹار ہوٹلوں اور ہٹس بنانے کیلئے نجی سرمایہ کاروں کو مدعو کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔
پاکستان کے صوبہ سندھ کی حکومت نے ہاکس بے پر 3 ستارہ ہوٹلز اور ہٹس بنانے کے لیے نجی سرمایہ کاروں کو مدعو کرنے کا منصوبہ بنایا ہے اور اس سلسلے ساحل پر موجود 254 ہٹس کی لیز منسوخ کردی گئی ہے جنہیں خالی کروا کر مسمار کردیا جائے گا۔
ساحل سمندر پر کے ایم سی کی اس پٹی کی لمبائی 5 کلومیٹر ہے جس کا کل رقبہ تقریباً 387 ایکڑ بنتا ہے۔ جبکہ اس سے متصل ساحلی حصے کے پی ٹی اور بورڈ آف ریونیو کی ملکیت ہیں۔
ساحلی زمین اے، اے ون اور ایس سیریز میں منقسم ہے جن کی اے سیریز میں وہ پلاٹس شامل ہیں جو ساحل کے عین سامنے کی جانب ہیں، جبکہ دیگر دو سیریز اس کے عقب میں ہیں۔
حکومت سندھ کے پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ یونٹ کے ڈائریکٹر جنرل خالد محمود شیخ نے میڈیا سے گفتگو کے دوران تصدیق کی کہ اس ترقیاتی منصوبے پر عملدرآمد ان کا یونٹ کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ ‘حکومت ساحل سمندر کی ترقی سے متعلق فیزیبلٹی پلان تیار کرنے کے لیے ایک کنسلٹنٹ کی خدمات حاصل کرے گی۔’
ان کے مطابق یہ ایک طویل عمل ہے جس کی تیاری میں کم از کم 6 ماہ لگ جائیں گے۔
سندھ حکومت پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ یونٹ انفرا اسٹرکچر کی تعمیر کے لیے نجی سرمایہ کاروں کی خدمات حاصل کرتی ہے۔ پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت ہونے والے ترقیاتی کاموں کا طریقہ کار حکومت کے ان منصوبوں سے مختلف ہوتا ہے جس کے تحت وہ خود پیسہ لگا کر منصوبہ تعمیر کرتی ہے۔
ہاکس بے کے منصوبے کے لیے حکومت اس کی لاگت کا تخمینہ اور اسٹڈی رپورٹ تیار کرے گی جس کے بعد سرمایہ کاری کے لیے ٹینڈر طلب کیے جائیں گے اور پھر پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ یونٹ کا پالیسی بورڈ موزوں سرمایہ کار کا انتخاب کرے گا۔
خالد محمود شیخ کے مطابق منصوبے کا مقصد لوگوں کو ساحل پر ان سہولیات کی فراہمی ہے جو دیگر ممالک میں میسر ہیں۔ یہ سہولیات پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ یونٹ کے اس منصوبے کے تحت لوگوں کو کراچی میں ہی میسر ہوں گی جنہیں صاف ستھرے ساحل سے لطف اندوز ہونے کے لیے تھائی لینڈ اور دیگر ممالک جانے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔
یہ بھی پڑھیے
کراچی کی ساحلی پٹی پر آباد ماہی گیر مسائل سے دوچار
کے ایم سی کے ایڈمنسٹریٹر لئیق احمد کا کہنا ہے کہ ‘ساحل سمندر کی اراضی کی قیمت کا تخمینہ لگانے کے لیے ایک چارٹرڈ اکاؤنٹنسی فرم کی خدمات حاصل کی جائیں گی۔’
یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ کے ایم سی مالی لحاظ سے کمزور ہے جس کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ اپنے ذرائع آمدنی سے احسن طور پر کمانے سے قاصر ہے۔ اسے اپنے فرائض کی انجام دہی کے لیے حکومتی فنڈز کی ضرورت رہتی ہے تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حکومت سندھ نے کے ایم سی کے بہت سے ذرائع آمدنی اس سے واپس بھی لے لیے ہیں۔
اس کے تدارک کے لیے وزیر اعلیٰ سندھ اعلانات کرتے رہے ہیں تاہم 21 جنوری کو انہوں نے تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے ایک کروڑ 70 لاکھ روپے کی گرانٹ دی اور کے ایم سی کو مالی طور پر مستحکم ادارہ بنانے کی خاطر مختلف محصولات کی وصولی کا نیا ماڈل بنانے کا عہد کیا۔
انہوں نے کہا کہ کے ‘ایم سی کے پاس خوبصورت پارکس اور ساحل سمندر پر ہٹس جیسے قیمتی اثاثے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی ادارہ انہیں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ موڈ پر کیوں نہیں چلارہا تھا؟ اس سے کے ایم سی کی آمدنی کا ایک ذریعہ بھی پیدا ہوگا اور مناسب طور پر دیکھ بھال بھی ہوجائے گی۔’
28 جنوری تک انہیں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ بورڈ کی جانب سے آئی سی آئی پل پر دو لینز کے ون انٹرچینج کے ساتھ 8 کلومیٹر طویل ماڑی پور ایکسپریس وے کی منظوری دی جاچکی ہے۔ پریس ریلیز کے مطابق اس اقدام کا مقصد ساحل سمندر تک تیز رسائی آسان بنانا ہے۔
یہ منصوبہ 2 سال میں مکمل ہوگا جس سے ملحقہ علاقے میں ٹریفک جام کا مسئلہ بھی حل ہوجائے گا۔ اس کے لیے پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ یونٹ ٹینڈرز جاری کرے گا۔
دسمبر 2020 میں اس وقت کے ایڈمنسٹریٹر کے ایم سی اور کمشنر کراچی افتخار علی شلوانی نے لیز منسوخ کرتے ہوئے مالکان کو ہٹس خالی کرنے کی ہدایت کی تھی جس کے بعد معاملہ کچھ خراب ہوا۔
تمام اراضی حکومت کی ہی ملکیت ہوتی، وہ لوگوں کو زمین استعمال کرنے کی اجازت دیتی ہے اور اس معاہدے کو لیز کہا جاتا ہے۔
کے ایم سی کے معاملے میں یہ لوگوں کو اپنی زمین پر پلاٹس کے لیے لیز دیتی ہے۔ اس کے عوض لوگ ہر سال ایک فیس ادا کرتے ہیں جس سے لیز کی تجدید ہوجاتی ہے۔ کے ایم سی کے ریکارڈ کے مطابق ہاکس بے میں اس کی زمین پر 254 ہٹس قائم ہیں اور ہر ہٹ کی لیز کی مد میں فیس 16 ہزار روپے سالانہ تھی۔
سالہا سال سے لوگوں نے اپنے پلاٹس کی لیز حاصل کیں، ہٹس بنائے اور لیز کی تجدید بھی کراتے رہے۔ تقریباً 30 ہٹس کے مالکان مقامی ہی ہیں اور وہ ہٹس 35 سال یا زائد عرصے سے ان کے قبضے میں ہیں جن سے وہ پیسہ کماتے ہیں اور وہ ہر سال لیز کی فیس کی مد میں ایک ہزار روپے ادا کرتے ہیں۔
کچھ لوگ ہٹس کو اپنے لیے استعمال کرتے ہیں اور کئی لوگ انہیں ساحل سمندر پر جانے والوں کو کرائے پر دیتے ہیں۔ گرد و نواح کے دیہاتوں میں کئی بلوچ خاندان آباد ہیں جنہوں نے ہٹس کی تعمیر اور دیکھ بھال کے لیے سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔ یہ لوگ ہٹس کرائے پر دیتے ہیں جو ان کا ذریعہ آمدنی ہے۔
دسمبر 2020 میں کے ایم سی نے لیز منسوخ کرتے ہوئے یہ وجہ بتائی تھی کہ ہٹس مالکان نے لیز کی فیس 3 برسوں یعنی 2017 سے ادا نہیں کی۔ تاہم ہٹس مالکان نے اس کی تردید کی ہے کرتے ہوئے کہا کہ ‘ہم نادہندگان نہیں ہیں۔ کے ایم سی کے دفتر گئے تھے لیکن متعلقہ عملے نے ہر بار یہ ہی بتایا کہ وہ ابھی فیس وصول نہیں کررہے ہیں کیونکہ اس میں اضافہ ہونے والا ہے۔’
اس علاقے کے گرد و نواح کے تقریباً 12 گاوُں ایسے ہیں جن کی آمدنی ساحل سمندر سے منسلک ہے۔ ان میں حاجی احمد گوٹھ، ولی محمد گوٹھ ، لشکری گوٹھ ، جمالی گوٹھ ، سومر گوٹھ ، عبد الرحمن گوٹھ بھی شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
برنس روڈ کراچی کی قدیم عمارتوں پر رنگ و روغن کے خلاف اقدامات
سمندر میں جوار کے دوران مچھلی کے شکار پر پابندی ہوتی ہے لہٰذا ماہی گیر ان مہینوں کے دوران ہاکس بے سے مبارک ولیج تک ساحل کے کنارے چائے، بسکٹ، پانی اور کولڈ ڈرنکس وغیرہ فروخت کرتے ہیں۔ جبکہ اونٹ اور گھوڑوں کی سواری بھی کرانے والے اور سپیرے بھی وہاں موجود ہوتے ہیں۔
کے ایم سی کے لیز میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ یہ لیز (بقیہ شہر کے برخلاف جہاں لیز 99 سال کی ہوتی ہے) عارضی اور ایک سال کے لیے ہے اور یہ کہ صرف ایک عارضی ہٹ ہی تعمیر کی جاسکتا ہے۔
کے ایم سی نے تمام 254 ہٹ الاٹیز کو ایک ہی جیسا نوٹس جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ کرایہ دار سن 1973 سے کرایہ ادا نہیں کررہے جو کہ غلط ہے۔ انہیں لیز کی منسوخی کی ٹھوس وجہ نہیں بتائی گئی اور کوئی باقائدہ و مناسب نوٹس بھی نہیں دیا گیا۔ کے ایم سی نے جان بوجھ کر پچھلے تین برس سے کرایہ داروں سے کم کرایہ قبول نہیں کیا تھا تاکہ وہ انہیں نادہندہ کہہ سکیں۔