کشمالہ طارق کے صاحبزادے زخمی شحض کی شناخت کے باوجود آزاد

پولیس نے حادثے میں زخمی شخص کے بیان کو ریکارڈ کا حصہ بنالیا ہے۔ دوسری جانب کشمالہ طارق نے دعویٰ کیا ہے کہ ٹریفک حادثے میں ان کا بیٹا گاڑی نہیں چلا رہا تھا۔

پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی سری نگر ہائی وے پر کشمالہ طارق کے سرکاری پروٹوکول میں شامل گاڑیوں کی ٹکر سے 4 افراد کی ہلاکت کے واقعے میں تاحال نامزد ملزم کو گرفتار نہیں کیا گیا۔

پولیس نے وفاقی محتسب برائے انسداد ہراسانی کشمالہ طارق اور ان کے شوہر کو تفتیش کے لیے طلب کرنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن اِس واقعے میں زندہ بچ جانے والے واحد زخمی شخص کے بیان کے باوجود کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔

پولیس نے حادثے میں زخمی شخص کے بیان کو ریکارڈ کا حصہ بنالیا ہے۔ دوسری جانب کشمالہ طارق نے دعویٰ کیا ہے کہ ٹریفک حادثے میں ان کا بیٹا گاڑی نہیں چلا رہا تھا۔

حادثے کے زخمی شخص مجیب الرحمٰن نے کشمالہ طارق کے دعوے کو جھوٹا قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کا بیٹا اذلان گاڑی چلا رہا تھا۔ مجیب الرحمٰن کا کہنا ہے کہ ’میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ اذلان گاڑی چلا رہا تھا۔‘ حادثے میں زندہ بچ جانے والے مجیب الرحمٰن نے وزیراعظم عمران خان سے اُنہیں انصاف فراہم کرنے کی درخواست کی ہے۔

اِس واقعے کی ایف آئی آر میں کشمالہ طارق کے بیٹے اذلان کو بھی نامزد کیا گیا ہے لیکن اب تک اُنہیں نا تو گرفتار کیا گیا ہے اور نا ہی پوچھ گچھ کے لیے طلب کیا گیا ہے۔

اِس معاملے پر بظاہر حکومت نے کسی طرح اثر انداز ہونے سے اجتناب کیا ہے۔ وزیر اعلی پنجاب کی مشیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے کشمالہ طارق کے معاملے میں بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’جن خواتین کی چھترول ہونی چاہیے تھی وہ پروٹوکول کے مزے لے رہی ہیں اور لوگوں کو سڑکوں پر کچل رہی ہیں۔‘ میڈیا سے گفتگو کے دوران اُن کا کہنا تھا کہ کشمالہ طارق کی برطرفی کے لیے صدر کو ریفرنس بھیجنے کا فیصلہ ہوا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کشمالہ طارق کے سرکاری پروٹوکول کی ٹکر سے 4 افراد جاں بحق

اُدھر وزیر اعظم کے معاون خصوصی شہباز گل نے ایک ٹوئٹ کیا ہے جس میں اُنہوں نے کہا ہے کہ موجودہ صورتحال میں کشمالہ طارق کو استعفیٰ دے دینا چاہیے تاکہ یہ تاثر ختم ہوجائے کہ وہ پولیس پر تفتیش کے دوران اثر انداز ہورہی ہیں۔

اِس ساری صورتحال سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کشمالہ طارق اِس بات پر مصر ہیں کہ اُن کا ڈرائیور گاڑی چلا رہا تھا بیٹا دوسری گاڑی میں تھا لہذا اِس واقعے کی ذمہ داری ڈرائیور پر ہے جس کے پاس ڈرائیونگ کا تجربہ اور لائسنس ہے۔ جبکہ زخمی کا اسرار ہے کہ اُس نے کشمالہ کے بیٹے کو گاڑی چلاتے ہوئے خود دیکھا تھا۔

پاکستان کے قوانین کے مطابق اگر کوئی شخص بغیر ڈرائیونگ لائسنس کے گاڑی چلاتا ہے اور اگر کوئی حادثہ ہوجائے جس میں کسی کی جان چلی جائے تو قتل کا مقدمہ بنتا ہے۔ لیکن اگر لائسنس کا حامل شخص ایسے کسی واقعے میں ملوث ہوتو اُسے روڈ ٹریفک ایکسیڈنٹ کے مقدمے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

سوشل میڈیا پر کشمالہ طارق پر تنقید کی جارہی ہے۔ صارفین اُن پر تنقید کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ اعلی سرکاری عہدہ رکھنے کے باوجود واقعے کے بعد وہ جائے واقعہ سے چلی گئیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ اُنہیں وہیں رک کر زخمی ہونے والوں کو اسپتال پہنچانے کے انتظامات دیکھنے چاہیے تھے جبکہ جاں بحق ہونے والوں کو اسپتال اور مردہ خانے پہنچوانے کے انتظامات دیکھنے چاہیے تھے۔ مگر وہ جاں بحق اور زخمیوں کو کچلنے کے بعد جائے واقعہ سے نکل گئیں۔

متعلقہ تحاریر