باجوڑ میں قبائلی جرگے نے خواتین پر پابندیاں لگادیں

خواتین کے ایف ایم ریڈیو کو کال کرنے پر پابندی عائد کردی گئی ہے جس کی خلاف ورزی پر 10 ہزار روپے جرمانہ ہوگا۔

پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع باجوڑ میں ایک قبائلی جرگے نے خواتین کے ایف ایم ریڈیو کو کال کرنے پر پابندی عائد کردی ہے جس کی خلاف ورزی پر 10 ہزار روپے بطور جرمانہ عائد کیا جائے گا۔

قبائلی علاقوں میں تبدیلی آنے کے باوجود بھی وہاں کے لوگوں کی قسمت نہیں بدلی۔ تمام قبائلی اضلاع میں اب بھی فرسودہ روایات اور قوانین موجود ہیں جو مقامی لوگوں اور خاص کر خواتین کی زندگی اور ان کی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ ایسی ہی صورتحال صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع باجوڑ میں پیش آئی جب پرانی روایتیں اور قوانین برقرار رکھتے ہوئے انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی موجودگی میں مقامی عمائدین کے ایک جرگے میں مختلف اقوام نے خواتین کے صدائے امن مرکز جانے اور ایف ایم ریڈیوز کو کال کرنے پر پابندی عائد کردی۔ جبکہ خلاف ورزی پر قوم اور خاندان کو 10، 10 ہزار روپے جرمانہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔

مشران نے کہا ہے کہ صدائے امن پروگرام میں پیسے دینے کے طریقہ کار کے خلاف تحصیل وڑ ماموند کی تمام خواتین پر صدائے امن مرکز جانے پر پابندی ہوگی۔ اگر کسی قوم کی ایک بھی خاتون پیسے لینے گئی تو اس قوم کو 10 ہزار روپے جرمانہ کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ اگر تحصیل وڑ ماموند کی کسی عورت کی طرف سے ایف ایم ریڈیو کو کال کی گئی تو بھی خاندان 10 ہزار روپے بطور جرمانہ ادا کرے گا۔

باجوڑ کے اس قبائلی جرگے کے اس فیصلے کے خلاف جب مقامی انتظامیہ کی جانب سے جرگہ مشران سے مذاکرات کیے گیے تو ان کا موقف تھا کہ ‘قبائلی روایات میں خواتین کے پردے کا خاص انتظام کیا جاتا ہے لیکن جرگے کے ان دونوں فیصلوں کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا ہے۔ جس کے فیصلے میں کوئی پابندی نہیں لگائی گئی۔ ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا جس میں عمائدین نے خواتین پر پابندیوں کے حوالے سے کوئی حتمی فیصلہ کیا ہو۔ یہ سب کچھ بحث اور تجاویز کی حد تک ہے جو مختلف لوگوں کی جانب سے پیش کی گئی ہے۔’

اگریہ صورتحال اور سوچ دیکھی جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ قبائلی علاقوں میں حالات اب بھی جوں کے توں ہیں اور بندوبستی علاقوں کے ساتھ ضم ہونے کے باوجود بھی قبائل کے حالات نہیں بدلے۔ خاص کر خواتین کے حوالے سے جو پابندیاں، فرسودات و روایات اور نام نہاد جرگوں کے فیصلے پہلے کی طرح اب بھی خواتین کی زندگی مشکل بنائے ہوئے ہیں۔

باجوڑ کے قبائلی جرگے میں کیے گئے خواتین کو صدائے امن کے دفاتر جانے سے روکنے کے فیصلے کا مقصد نا صرف انہیں معاشی لحاظ سے کمزور کرنا ہے بلکہ ریڈیو اسٹیشنز کال کرنے پر پابندی لگا کر اور خواتین کو ڈرا کر ان کی آزادی رائے کے حق کو کو دبانا بھی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو قبائلی اضلاع کے ضم ہونے کے باوجود بھی اکثر علاقوں میں مرد خواتین کو وہ حقوق دینے کو تیار نہیں جن کی وہ حقدار ہیں۔ انہیں ضروریات زندگی کے لیے جیب خرچ دینا تو دور کی بات ہے بلکہ وہ چند پیسے بھی لینا چاہتی ہیں جو حکومت انہیں زندگی کی بنیادی ضروریات کے لیے دے رہی ہے۔

باجوڑ جرگہ

اگر دیکھا جائے تو خواتین اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارنے کے حق تک سے محروم ہیں اور بدقسمتی سے باجوڑ کے جس علاقے ‘ماموند’ میں جرگہ ہوا ہے وہاں پر لڑکیوں کو آج بھی پیسوں کے عوض فروخت کردیا جاتا ہے۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ اس کے خلاف کوئی جرگہ نہیں ہوتا اور نہ ہی کسی نے اس کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ اس علاقے میں لڑکیوں کے لیے کوئی کالج بھی نہیں ہے لیکن اس پر بات کرنے کو کوئی تیار نہیں ہے۔

مقامی لوگوں کی جانب سے جہاں جرگے کے فیصلے پر شدید تنقید کی جارہی ہے وہیں انتظامیہ اور حکومت کی جانب سے بھی اس واقعے کا نوٹس لیا گیا ہے اور ان تمام لوگوں کے ساتھ سختی سے نمٹنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو اس جرگے میں موجود تھے۔ انتظامیہ کے مطابق کسی کو ماورائے آئین و قانون اور شریعت کے منافی کوئی فیصلہ نہیں کرنے دیا جائے گا۔ جرگہ عمائدین کے ساتھ مذاکرات میں انتظامیہ کی جانب سے یہ بھی فیصلہ ہوا کہ بچوں کو وظیفہ دینے والے مزید مراکز بنانے سے متعلق تجاویز متعلقہ اداروں کو بھیج دی جائیں گی۔  ضلعی انتظامیہ کے وفد نے جرگے کو منشیات کی روک تھام کے لیے اقدامات کی یقین دہانی بھی کرائی ہے۔

دوسری جانب جب کچھ مقامی خواتین سے اس فیصلے پر بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ ‘قبائلی خواتین کے پاس معلومات حاصل کرنے کا واحد ذریعہ ریڈیو اسٹیشنز ہیں۔ اب اگر یہ ذریعہ بھی ان سے چھین لیا جائے تو وہ کیا کریں گی؟ ملک کے دیگر حصوں کی خواتین کہیں نہ کہیں سے معلومات حاصل کرلیتی ہیں لیکن قبائلی اضلاع میں انٹرنیٹ کام نہیں کرتا اور موبائل فونز خواتین کے پاس نہیں ہیں۔ یہی ایک ریڈیو اسٹیشنز ہیں جنہیں سن کر خواتین معلومات حاصل کرتی ہیں لیکن اب وہاں بھی کال کرنے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

سوات میں 6 سالہ بچی کو سوارہ کی بھینٹ چڑھنے سے بچالیا گیا

دوسری جانب اس معاملے پر ضلع باجوڑ کے ڈپٹی کمشنر محمد فیاض نے بتایا کہ ‘ایف سی آر کے خاتمے کے بعد اب قبائلی اضلاع میں اس قسم کے جرگوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور کوئی بھی شخص کسی دوسرے شخص کو بنیادی حقوق سے محروم نہیں کرسکتا’۔ انہوں نے کہا کہ ‘انتظامیہ کسی کو بھی یہ اختیار نہیں دیتی کہ وہ خود سے کوئی حکم صادر کریں۔ اگر کسی نے ایسا کیا تو اس کے خلاف ایف آئی آر درج کر کے سخت سے سخت کارروائی کی جائے گی۔

صوبائی حکومت کی جانب سے بھی اس فیصلے کی مذمت کی گئی ہے اور مقامی انتظامیہ کو جلدازجلد رپورٹ پیش کرنے کے احکامات بھی جاری کر دیئے گئے ہیں۔

وزیر اعلی خیبر پختونخوا کے معاون خصوصی کامران بنگش کا کہنا ہے کہ ‘قبائلی عمائدین کی جانب سے خواتین کو باہر جانے سے روکنا اور ان کی آواز دبانا کسی بھی قانون اور رواج کا حصہ نہیں ہے۔ اگر قبائلی مشران کو تحفظات ہیں تو ہمیں بتائیں لیکن خواتین پر غیرقانونی پابندی لگانے کی اجازت ہر گز نہیں دی جاسکتی اور نہ ہی ایسے فیصلوں کو تسلیم کیا جا سکتا ہے۔’

متعلقہ تحاریر