پاکستان میں سینئر صحافیوں کا غیر ذمہ دارانہ رویہ

غریدہ فاروقی نے چوہدری شجاعت کے بیٹے جبکہ حامد میر نے اسلام آباد پولیس پر الزام لگایا ہے۔

پاکستان میں غیر ذمہ دارانہ صحافت کا اندازہ سینئر صحافیوں حامد میر اور غریدہ فاروقی کی حالیہ ٹوئٹس سے لگایا جاسکتا ہے۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری پیغام میں غریدہ فاروقی نے چوہدری شجاعت کے بیٹے چوہدری سالک پر الزام لگایا کہ انہوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو واٹس ایپ میسج میں بتایا کہ وزیراعظم نے انہیں ترقیاتی فنڈز دیئے ہیں۔

جبکہ دوسری جانب وزیراعظم عمران خان کا موقف تھا کہ اب تک فنڈز کی فہرست جاری نہیں ہوئی جن سے متعلق تمام خبریں بےبنیاد ہیں۔

غیر ذمہ دارانہ صحافت کا مظاہرہ کرتے ہوئے غریدہ فاروقی نے ایک اور ٹوئٹ میں لکھا کہ ‘چوہدری سالک حسین کے مطابق نہ تو وہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جانتے ہیں اور نہ ہی انہوں نے کوئی میسج کیا ہے۔’

غریدہ فاروقی کو اپنے ٹوئٹ کے بعد نہ صرف عوام بلکہ صحافیوں کی جانب سے بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

اس کے ٹوئٹ کے جواب میں نجی چینل ‘دنیا’ نیوز کے پروگرام حسبِ حال کے میزبان جنید سلیم نے لکھا کہ غریدہ فاروقی کو یہ بھی بتانا چاہیے تھا کہ عدالت نے وزیراعظم کی وضاحت کو تسلی بخش قرار دیا ہے۔

انہوں نے لکھا کہ ‘غریدہ فاروقی ان ثبوتوں کو سامنے لائیں جو قاضی فائز عیسیٰ کو بھیجے گئے ہیں یا پھر عدالت کے فیصلے کو تسلیم کریں۔’

غریدہ فاروقی سے دنیا نیوز کے اسلام آباد کے بیورو چیف خاور گھمن نے سوال کیا کہ ‘کیا آج سپریم کورٹ نے اس کیس کو نمٹا نہیں دیا؟’ جس کے جواب میں غریدہ فاروقی نے لکھا کہ ‘جی۔ نمٹا دیا مگر یہ آج کی کارروائی کا احوال ہے اور بزبانِ حکومتی اتحادی۔۔۔۔’

وزیر اعظم عمران خان کے معاون خصوصی ڈاکٹر شہباز گل نے غریدہ فاروقی کے ٹوئٹ کا جواب دیتے ہوئے لکھا کہ ‘آپ کو ایک نئی درخواست دینا چاہیے۔’

شہباز گل نے لکھا کہ ‘آپ ہمیشہ کی طرح جھوٹ بول رہی ہیں۔ آپ اور آپ کے ذرائع پرلے درجے کے جھوٹے ہیں۔ ایسا طرز عمل صحافت کے لیے شرمندگی سے کم نہیں ہے۔’

یہ بھی پڑھیں

سینئر صحافی انصار عباسی کی فروحی معاملات میں دلچسپی

سالک حسین نے غریدہ فاروقی کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ ‘آپ نے یہ پروپیگنڈہ خبر شائع کی ہے تو لازم ہے کہ آپ نے ثبوت دیکھے ہونگے؟ آپ یہ ثبوت قوم کے ساتھ ساتھ مجھے بھی دکھا دیں۔’

سالک حسین نے اپنے ایک اور ٹوئٹ میں عدالت میں ہونے والی سماعت کا احوال بتاتے ہوئے کہا کہ ‘کچھ لوگ حکومت اور اتحادیوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔’

سینئر صحافی عمر چیمہ نے بھی غریدہ فاروقی کے ٹوئٹ کا جواب دیتے ہوئے لکھا کہ ‘جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ان ترقیاتی منصوبوں کا ذکر کرے رہے ہوں گے جو چوہدری سالک کے حلقہ این اے 65 کے لیے منظور ہوئے ہیں۔ اس بارے میں ٹینڈر گزشتہ ماہ ہوا ہے۔’

سینئر صحافیوں کی غیر ذمہ دارانہ صحافت کی ایک اور مثال تب دیکھنے کو ملی جب اسلام آباد میں سرکاری ملازمین کے احتجاج میں پولیس کی جانب سے مظاہرین پر شیلنگ کی گئی جس کے بعد حامد میر نے اپنے پروگرام میں کہا کہ ‘پولیس نے مظاہرین پر آنسو گیس کی شیلنگ کی تھی جس کی معیاد ختم ہوچکی تھی۔’

اپنے پروگرام کے بعد انہوں نے ایک ٹوئٹ بھی کیا جس میں بتایا کہ ‘اسپیشل برانچ اسلام آباد میں تعینات کانسٹیبل راجہ اشتیاق کا انتقال مظاہرین پر زہریلی گیس کی شیلنگ کی وجہ سے ہوا۔’

حامد میر کے ٹوئٹ کے جواب میں اسلام آباد پولیس نے بتایا کہ انتقال کرنے والے کانسٹیبل کو دل کا عارضہ لاحق تھا۔

پاکستان کے برعکس دنیا کے دیگر اور بڑے ذرائع ابلاغ کے ادارے یا ان سے منسلک کوئی شخص صحافت کے اصولوں کی خلاف ورزی یا غیر ذمہ دارانہ رویے کا مظاہرہ کریں تو انہیں تادیبی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کی تازہ مثال مشہور خبر رساں ادارے ‘ڈیلی میل’ کی صورت میں موجود ہے جس کے خلاف میگن مارکل نے اُن کے خفیہ خط نشر کرنے پر حرجانے کا دعویٰ کردیا تھا۔

میگن مارکل
people.com

اس کے علاوہ چند روز قبل انڈیا کے سینئر صحافی راجدیپ سردیسائی نے اپنے پروگرام کے دوران غلط خبر دے دی تھی۔ نیوز چینل ‘انڈیا ٹو ڈے’ نے سینئر صحافی کی سزا کے طور پر اُن کی ایک ماہ کی تنخواہ کاٹی  اور انہیں ایک ماہ کے لیے آف ایئر بھی کردیا ہے۔

متعلقہ تحاریر