پشاور کے نابینا نوجوان کرسی سازی کے ماہر

بصارت سے محروم عدنان 11 سال سے کرسی سازی کا کام کر رہے ہیں جو چارپائی بھی بنا لیتے ہیں۔

پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور کے نابینا نوجوان عدنان نے ہمت کی اعلیٰ مثال قائم کردی ہے جو بصارت سے ہونے کے باوجود بھی کرسی سازی میں مہارت رکھتے ہیں۔

بند آنکھوں سے امور کی انجام دہی ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے لیکن خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور کے نابینا نوجوان عدنان کرسی سازی میں مہارت رکھتے ہیں۔ عدنان کرسی کی کاری گری کے ساتھ ساتھ تعلیمی لحاظ سے بھی کسی سے کم نہیں ہیں۔ بی اے تک تعلیم حاصل کرنا محمد عدنان کے کردار کو مزید معتبر بنا دیتا ہے۔

عدنان کا کہنا ہے کہ ’میں کرسیاں بنانے کا کام 11 سال سے کر رہا ہوں اور چارپائی بھی بنا لیتا ہوں۔ مجھے ایک کرسی پر 2 سے 3 گھنٹے لگتے ہیں۔ گھر میں اور بھائی بہن بھی ہیں جو ٹھیک ہیں۔ گھر کا خرچہ میں چلاتا ہوں اس لیے اپنی محنت خود کرتا ہوں۔‘

نیوز 360 کو عدنان نے بتایا کہ ’اندھیروں کے اس سفر میں ہر قدم پر مشکلات دیکھیں لیکن حلال رزق کی خاطر ہمت اور حوصلے بلند رہے۔‘ عدنان خوش ہیں کہ انہوں نے اپنے ہنر کے ساتھ ساتھ پشاور یونیورسٹی سے تعلیم بھی مکمل کی ہے۔

انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ روزگار کی فراہمی میں معذور افراد کو ان کا حق دیا جائے اور اگر حکومت اُن جیسے ہنر مند افراد کی مدد کرے تو وہ بہتر کام کر کے دوسروں کے کام آسکتے ہیں۔

حکومت بصارت سے محروم ان ہنرمندافراد کو بہتر مواقع فراہم کر کے ان کی مشکلات میں کمی کا سسب بن سکتی ہے لیکن بدقسمتی سے خیبرپختونخوا میں حکومت اب تک معذوروں کو وہ سہولیات دینے میں ناکام رہی ہے جن کا وعدہ کیا گیا تھا۔

صوبے میں معذور افراد کے لیے قانون سازی 3 سال سے التواء کا شکار ہے۔ اس قانون کے لیے مختلف محکموں سے مشاورت کی گئی تھی اور ضروری ترامیم کے بعد حتمی مسودہ محکمہ قانون کو بھجوایا گیا تھا لیکن ابھی تک کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

47 برس میں قرآن لکھا بھی اور ترجمہ بھی کیا

دوسری جانب وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان نے گذ شتہ سال معذور افراد کا کوٹہ بڑھانے کا اعلان کیا تھا جس پر ابھی تک عمل نہیں ہوسکا ہے۔ خیبرپختونخوا میں اس وقت ایک لاکھ 45 ہزار معذور افراد گذشتہ 3 سالوں سے وظیفوں سے بھی محروم ہیں۔

متعلقہ تحاریر