اظہارِ محبت کی نہیں تشدد کی اجازت ہے

سوشل میڈیا پر اِس بات کا بھی مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ انتظامیہ کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنا چاہیے اور تشدد کو روکنا چاہیے۔

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر لاہور میں قائم یونیورسٹی آف لاہور کی انتظامیہ نے یونیورسٹی کے احاطے میں اظہار محبت کرنے پر 2 طلباء کو نکال دیا ہے لیکن تشدد کو فروغ دینے والے عناصر کے خلاف اتنی مستعدی سے کارروائی عمل میں نہیں لائی جاتی۔

کالجز اور یونیورسٹیز میں لڑائی جھگڑا اور دھینگا مشتی معمول کی بات ہے۔ مگر اِس میں ملوث کسی طالب علم کو موقع پر کم از کم نکالا نہیں گیا۔ اگر اس قسم کی کوئی کارروائی کی بھی گئی تو مکمل انکوائری کے بعد۔ مگر یونیورسٹی آف لاہور کی انتظامیہ نے 2 طلباء کو صرف اس بنا پر فارغ کردیا ہے کہ انہوں نے یونیورسٹی کے احاطے میں ایک دوسرے سے محبت کا اظہار کیا تھا۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک ویڈیو وائرل ہو رہی ہے جس میں یونیورسٹی آف لاہور کی ایک لڑکی اور لڑکا فلمی انداز میں ایک دوسرے کے ساتھ محبت کا اظہار کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔

 ویڈیو وائرل ہونے کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ نے دونوں طالب علموں کو اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کیا تھا مگر دونوں طالب علم انکوائری کمیٹی کے سامنے پیش نہ ہوئے جس پر یونیورسٹی انتظامیہ نے یک طرفہ اقدام کرتے ہوئے ان کو فارغ کردیا ہے۔

یونیورسٹی انتظامیہ نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ دونوں طالب علم مستقبل میں بھی ادارے کی کسی فیکلٹی میں داخلہ لینے کے اہل نہیں ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیے

اسکولز، سینیماز، ہوٹلز اور تفریحی مقامات پر کرونا کی پابندیاں برقرار

مذکورہ واقعے کے تناظر میں سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا ہے اور ٹوئٹر پر صارفین کا ملاجلا ردعمل سامنے آرہا ہے۔

مذکورہ واقعے پر ٹوئٹ کرتے ہوئے پاکستان کے عظیم کرکٹر وسیم اکرم کی اہلیہ نے کہا ہے کہ آپ جو چاہے مرضی کرلیں لوگوں کے دلوں سے محبت کو کیسے نکالیں گے۔

 ٹوئٹر کے ایک صارف عمر قریشی کا کہنا ہے مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ یہ واقعہ ابھی کا نہیں بلکہ ویلنٹائن ڈے کا ہے۔

نوری نام کی ایک ٹوئٹر صارف نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ہماری کچھ اخلاقی روایات ہیں مگر پھر بھی طالب علموں کو یونیورسٹی سے نکالنا نہیں بنتا تھا۔

 نوید احمد بٹ نے اس سارے معاملے میں مولویوں کو گھسیٹ لیا ہے ان کا کہنا ہے وہ بھی اسی یونیورسٹی میں پڑھے ہوئے ہیں وہاں کیا کچھ ہوتا ہے انہیں سب کچھ پتا ہے۔ 80 فیصد انتظامیہ مولوی ہے۔

 تاہم فیاض الحق  ٹوئٹر صارف نے بات ہی ختم کردی ہے ان کا کہنا ہے جو طریقہ اختیار کیا گیا وہ غلط تھا اس سے آگے کچھ نہیں۔

ایسے کئی واقعات سامنے آئے ہیں جس میں طلباء کا آپس میں جھگڑا ہوا ہے اور ایک دوسرے پر تشدد کیا گیا ہے۔ تشدد کے واقعات میں یونی ورسٹیز میں طلباء کی ہلاکت بھی ہوئی ہے لیکن اُن میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی یا تو ہویی نہیں اور اگر ہوئی بھی تو کافی دیر سے لیکن اظہار محبت پر برق رفتاری سے کارروائی نے نئی مثال قائم کر دی ہے۔

تازہ واقعہ باچا خان یونی ورسٹی میں پیش آیا ہے جہاں مشال خان نامی نوجوان کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا تھا۔ اِس کے علاوہ اسلامک یونی ورسٹی اسلام آباد میں بھی تشدد کا واقعہ پیش آیا تھا۔ لیکن وہاں مختلف وجوہات کی بنا کر کارروائی خاصی دیر سے کی گئی تھی۔

دو سال قبل بہاالدین زکریا یونیورسٹی میں انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کے ٹیچر اکبر علی سے طلبہ کی جانب سے بدسلوکی کی گئی۔ رواں سال جنوری میں آن لائن امتحانات کے لئے لاہور میں طلبہ نے ایک نجی یونیورسٹی پر دھاوا بول دیا جس کے دوران اساتذہ سے بدتمیزی کی گئی۔  لیکن بات معافی تلافی پر ختم ہوگئی۔

یونیورسٹی آف لاہور میں اظہار محبت کے معاملے پر سوشل میڈیا پر اِس بات کا بھی مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ انتظامیہ کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنا چاہیے اور تشدد کو روکنا چاہیے۔

متعلقہ تحاریر