کرونا کی تیسری لہر پر پارلیمان کا مایوس کن کردار

قانون سازوں نے ویکسین کی خریداری اور ویکسینیشن مہم سے متعلق سوالات کیے لیکن یہ صورتحال کی بہتری کے لیے کوئی کردار ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

پاکستان کو ان دنوں کرونا کی وباء کی تیسری اور شدید لہر کا سامنا ہے۔ بچوں سمیت بڑی تعداد میں شہری اس مرض کا شکار ہورہے ہیں۔ گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ملک بھر میں کرونا کے باعث 98 اموات ہوگئی ہیں جبکہ 4 ہزار 900 سے زیادہ مثبت کیسز بھی سامنے آئے ہیں لیکن اس صورتحال میں پارلیمان کا کردار مایوس کن رہا ہے۔

حالیہ چند ہفتوں کے دوران پاکستان میں کرونا کی ویکسینیشن مہم توقع سے کہیں زیادہ سست رہی ہے اور 100 افراد میں سے صرف صفر عشاریہ ایک چھ (0.16) افراد کو فراہمی ممکن ہوسکی ہے جو خطے میں سب سے کم ہے۔ سرکاری دفاتر اور صحت کی دیکھ بھال کے مراکز میں سماجی فاصلے کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا گیا ہے۔ اس صورتحال میں پارلیمان کا کردار مایوس کن رہا ہے اور وہ کرونا ویکسین اور مرض کی روک تھام کے حوالے سے کوئی کردار ادا نہیں کرسکا ہے۔

ٹرسٹ فار ڈیمو کریٹک ایجوکیشن اینڈ اکاؤنٹیبلٹی، فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک ( ٹی ڈی ای اے، فافن) نے کرونا کی وباء پر پانچویں مانیٹرنگ رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق وباء کی تیسری لہر کے دوران لاپرواہی کے سبب کرونا کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔

رپورٹ میں کرونا کی وبائی صورتحال میں پارلیمان کے مایوس کن کردار کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ سینیٹ اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں نے وباء کی پریشان کن صورتحال پر غور کے لیے فروری میں اجلاس منعقد کیے۔ قانون سازوں نے ویکسین کی خریداری اور ویکسینیشن مہم سے متعلق سوالات کیے لیکن یہ اعلیٰ ترین فورمز صورتحال کی بہتری کے لیے کوئی کردار ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

مارچ میں شرح اموات میں اضافہ

رپورٹ کے مطابق پاکستان کرونا کی وباء کی تیسری اور شدید لہر میں داخل ہوچکا ہے۔ اس مرض پر قابو پانے کے لیے تیز رفتار اور پائیدار کوششوں کی ضروت ہے۔

فروری کے پہلے 3 ہفتوں کے دوران وباء کے پھیلاؤ کی ماہانہ شرح کے مطابق شرح اموات میں کمی واقع ہوئی تاہم آخری ہفتے میں اموات بڑھنے اور مارچ کے پہلے 2 ہفتوں میں متاثرین کی کثرت سے اس نئی لہر کا آغاز ہوا۔ فروری کے پہلے ہفتے میں کرونا کے پھیلاؤ کی شرح 3.6 فیصد تھی جو مارچ کے دوسرے ہفتے میں 5.8 فیصد تک پہنچ گئی۔

صحت مراکز اور سرکاری دفاتر میں بھی احتیاط ترک کرنے کا انکشاف

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ سرکاری دفاتر اور صحت کے اداروں میں بھی عملے اور علاج کے لیے آنے والوں کی جانب سے حفاظتی تدابیر پر عمل نہ کرنے کی شرح میں اضافہ ہوا۔ رپورٹ کے مطابق 30 فیصد سرکاری دفاتر اور صحت کی دیکھ بھال کے 34 فیصد مراکز میں سماجی فاصلوں کو ملحوظ نہیں رکھا گیا۔

کرونا کے ٹیسٹ میں کمی

لا پرواہی کے یہ رجحانات دوسرے اہم اشاریوں میں بھی دیکھے گئے ہیں جیسا کہ فروری میں ماہانہ ٹیسٹ میں مجموعی طور پر 0.98 ملین کی کمی ہوئی جو کہ نومبر 2020 میں دوسری لہر کے آغاز کے بعد سب سے زیادہ تھی۔

کرونا ویکسین، کورونا ویکسین
Xinhua

اس کے بعد ایک رد عمل کے طور پر یہ تعداد بتدریج بڑھنی شروع ہوئی اور فروری کے آغاز میں 31 ہزار فی ہفتہ سے بڑھ مارچ کے وسط تک 40 ہزار فی ہفتہ ریکارڈ کی گئی۔

ویکسینیشن کی شرح خطے میں سب سے کم

رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ویکسینیشن مہم توقع سے کہیں زیادہ سست رفتار رہی اور 100 افراد میں صرف 0.16 افراد کو اس کی فراہمی ممکن ہوسکی۔

ویکسینیشن کی فراہمی کی یہ شرح خطے کے دیگر ممالک مثلاً انڈیا، نیپال، بنگلہ دیش اور سری لنکا سے بھی کم ہے۔ رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ فرنٹ لائن ہیلتھ ورکرز کی اموات کی بڑھتی ہوئی شرح اور ویکسینیشن کی ان کی ضرورت کے مقابلے پر ویکسین کی کامیابی کرونا کی تیسری اور شدید لہر کے مقابلے کی قومی استعداد پر منفی اثرات مرتب کر سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کرونا کے مریضوں کے لیے صحت انصاف کارڈ ایک تحفہ

رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کرونا کی وباء کی تیسری لہر سے موثر طور پر نمٹنے کے لیے پاکستان میں نہ صرف  ویکسینیشن مہم کو مزید فعال بنانے کی ضرورت ہے بلکہ عوام میں حفاظتی تدابیر کو اپنانے کو رواج دینا ہوگا۔ اسی طرح بازاروں کے اوقات کار کی پابندی کو عوامی شعور کی بیداری اور انہیں اس حوالے سے مزید حساس بنانے کی مہم سے جوڑنا ہوگا۔

سوا کروڑ مستحق خواتین کے پاس شناختی کارڈ موجود نہیں

رپورٹ میں کہا گیا کہ حکومت ان لوگوں کی ضروریات اور مشکلات پر ضرور غور کرے جو ریلیف سرگرمیوں سے مستفید ہونے کے لیے مستحق ہونے کے باوجود درخواست دینے کے مطلوبہ تقاضے پورا نہیں کرسکتے ہیں۔ خاص طور پر  تقریباً ایک کروڑ 27 لاکھ  ایسی خواتین (جو اپنا کام کرتی ہیں یا غیر رسمی شعبے میں ملازم ہیں اور ان کے پاس قومی شناختی کارڈ بھی نہیں ہے) زیادہ توجہ کی مستحق ہیں۔

متعلقہ تحاریر