شفا یوسفزئی اور اسد طور کا معاملہ میشا اور علی ظفر جیسا ہے؟

خاتون اینکر نے صحافی کے خلاف ہراسگی کا مقدمہ دائر کرنے کا اعلان کردیا ہے۔

پاکستان کے معروف گلوکار علی ظفر اور میشا شفیع کی کہانی شاید ایک مرتبہ پھر دہرائی جانے والی ہے۔ ہم نیوز کی خاتون اینکر شفا یوسفزئی صحافی اسد طور کے خلاف میدان میں آگئی ہیں۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر خاتون اینکر نے صحافی کے خلاف ہراسگی کا مقدمہ دائر کرنے کا اعلان کردیا ہے۔

پچھلے دنوں اسلام آباد کے ایک صحافی اسد علی طور نے اپنے وی لاگ میں ہم نیوز کی خاتون اینکر شفا یوسفزئی پر ذاتی نوعیت کے الزامات لگائے تھے۔ جس پر اب دو ہفتوں بعد شفا یوسفزئی نے ردعمل دیا ہے۔

خاتون اینکر نے ٹوئٹ کیا کہ سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے اسد طور نے اپنے ویڈیو پیغامات میں ان کے خلاف قابل اعتراض الفاظ استعمال کیے جس کا مقصد انہیں ہراساں کرکے ساکھ کو خراب کرنا تھا۔

ایک اور ٹوئٹ میں شفا یوسفزئی نے بتایا کہ اپنے گھر والوں اور دوستوں سے مشورے کے بعد اب انہوں نے اسد طور کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

شفا یوسفزئی نے مزید لکھا کہ اس فیصلے پر کچھ لوگوں نے ان سے کہا کہ پاکستان کے قوانین کسی خاتون کو حق دلانے میں کمزور ہیں، جس پر انہوں نے کہا کہ اس مقدمے کو پھر ایک آزمائش کے طور پر لینا چاہیے۔ شفا یوسفزئی کے مطابق اگر ان کے خلاف کہی گئی باتوں کو پاکستان کا قانون ہراسگی اور ہتک عزت کے زمرے میں نہیں دیکھتا تو پھر کن باتوں کو ہراسگی میں شمار کیا جائے گا؟

 اسد طور نے شفا یوسفزئی پر ساکھ برقرار رکھنے کے لیے فوجی افسران کے ساتھ وقت گزارنے کا الزام لگایا تھا۔ انہوں نے شفا یوسفزئی کے لیے بندر اور مداری کی اصطلاح بھی استعمال کی تھی۔

اسد طور کے سوشل میڈیا پیغامات پر حقوق نسواں کے حامیوں نے انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا جبکہ مختلف نامور شخصیات نے ٹوئٹر پر شفا یوسفزئی کے حق میں آواز بلند کی۔

میڈیا انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد آج شفا یوسفزئی کے ساتھ کھڑی ہے لیکن معاملے کے عدالت پہنچنے کے بعد کیا صورتحال ہوگی یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ ہوسکتا ہے صورتحال یکسر تبدیل ہوجائے کیونکہ علی ظفر اور میشا شفیع کے معاملے میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا، جب تک معاملہ عدالت سے باہر تھا شوبز انڈسٹری کی بیشتر شخصیات میشا شفیع کے ساتھ کھڑی تھیں لیکن جب مقدمہ درج ہوا اور عدالت میں گواہان کی پیشی کی باری آئی تو سب پیچھے ہٹ گئے تھے۔

متعلقہ تحاریر