ٹی ایل پی سے متعلق مولانا فضل الرحمٰن نے اتحادیوں کو مشکل میں ڈال دیا

اس حمایت کا جھکاؤ حزب اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) میں دیگر جماعتوں کے لیے ایک امتحان بن گیا ہے۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کی حمایت کا اعلان کردیا ہے۔ یہ حمایت حزب اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) میں دیگر جماعتوں کے لیے ایک امتحان بن گئی ہے جس کے وہ سربراہ ہیں۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) اور پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے ٹی ایل پی کے کارکنان کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور حکومت کو ملک گیر احتجاج کی دھمکی دی ہے۔

اتوار کے روز ایک پریس کانفرنس کے دوران مولانا فضل الرحمٰن نے کہا تھا کہ ہم تحریک لبیک پاکستان پر ریاستی جبرو تشدد کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ جن لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کے لیے آواز اٹھائی انہیں قتل یا زخمی کردیا گیا۔ ٹی ایل پی کے احتجاج کے دوران ہم ان کی مدد کے لیے تیار ہیں۔ ہم اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے اور حکومت کو کبھی ناموس رسالت سے متعلق قوانین میں ترمیم کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

انہوں نے ٹی ایل پی کے مارچ میں حصہ بننے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ تحریک لبیک پاکستان کے کارکنان کے جنازے اگر اسلام آباد لے جائے گئے تو ہم ان کے ساتھ ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیے

فرانس سے تعلقات توڑنے سے نقصان پاکستان کا ہوگا، وزیر اعظم پاکستان

پی ڈی ایم میں شامل 9 میں سے 7 جماعتیں جن میں بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی)، نیشنل پارٹی (بزنجو)، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے ایم اے پی) اور قومی وطن پارٹی (کیو ڈبلیو پی) یا تو ترقی پسند ہیں یا قوم پرست جماعتیں ہیں۔ ان جماعتوں نے مولانا فضل الرحمٰن کے اعلان پر تاحال تحفظات کا اظہار نہیں کیا ہے۔

البتہ محمود خان اچکزئی نے مولانا فضل الرحمٰن کے اس بیان کی مذمت کی ہے جس میں اُنہوں نے کہا تھا کہ پابندی پی ٹی ایم پر لگانی چاہیے تھی لیکن ٹی ایل پی پر لگا دی گئی ہے۔ محمود خان اچکزئی نے بعد میں اپنی وہ ٹوئٹ حذف کر دی تھی۔

ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا مولانا فضل الرحمٰن پی ڈی ایم میں حلقہ بندیوں پر کالعدم تنظیم کی حمایت کے لیے اپنے نظریے کو مسلط کرنے کی کوشش کریں گے۔ چاہے یہ حمایت ذاتی حیثیت میں ہی کی گئی ہو۔ مولانا فضل الرحمٰن کا ٹی ایل پی کی طرف جھکاؤ پی ڈی ایم کی دیگر جماعتوں کو اتحاد سے دور کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔

پاکستان میں پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) پہلے ہی سیاسی نقطہ نظر میں فرق کی وجہ سے حزب اختلاف کی جماعتوں اتحاد سے علیحدہ ہوچکے ہیں۔

پی ڈی ایم کی ایک بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) نے مولانا فضل الرحمٰن کے اعلان پر تاحال تک کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔

DNA India

جب مسلم لیگ (ن) 2017 میں اقتدار میں تھی تو اس وقت کے وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کو ٹی ایل پی کے پرتشدد احتجاج کے بعد استعفیٰ دینا پڑا تھا۔

تاہم مسلم لیگ (ن) نے اسلام آباد میں ٹی ایل پی کے لانگ مارچ کی کال پر مولانا فضل الرحمٰن کے بیان پر چپ سادھ رکھی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا مسلم لیگ (ن) یہ بھول کر کہ 2018 میں ٹی ایل پی نے اس کو سیاسی طور پر کتنا نقصان پہنچایا ہے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کے خلاف اس صورتحال میں ٹی ایل پی کا ساتھ دے گی یا نہیں۔

متعلقہ تحاریر