پاکستانی میڈیا کا تشدد کا پرچار

جیو اور اے آر وائی کے شوز کے میزبانوں نے پولیس کو ماسک نہ پہننے والوں کو تھپڑ مارنے کا مشورہ دیا ہے۔

پاکستانی میڈیا نے کرونا کی وبائی صورتحال میں ماسک نہ پہننے والوں یا احتیاطی تدابیر کو نظر انداز کرنے والوں کے خلاف تشدد کا پرچار شروع کردیا ہے۔

پاکستانی میڈیا کے سب سے بڑے گروپ جنگ نے اپنے ملازمین کو پہلے ہی جبری برطرفیوں اور تنخواہوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے پریشان کر رکھا ہے تاہم اب اسی گروپ کے نیوز چینل جیو نے تشدد کا پرچار کرنا شروع کردیا ہے۔ جیو نیوز کے مارننگ شو جیو پاکستان کی میزبان ہما امیر شاہ نے براہ راست نشر ہونے والے شو میں کہا کہ جو لوگ ماسک نہیں پہن رہے انہیں تھپڑ مارے جانے چاہئیں۔

ہما امیر شاہ نے یہ بات اس وقت کی ہے جب وہ خود بھی ماسک نہیں پہنے ہوئے تھیں اور نہ ہی ان کے ساتھی میزبان نے ماسک پہنا ہوا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

جنگ گروپ کے ملازمین کا مالک کی حمایت کے بعد مخالفت میں احتجاج

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جیو نیوز کی میزبان کے پولیس کو دیے جانے والے اس مشورے کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

سینیئر صحافی و تجزیہ کار اعجاز حیدر نے ماسک نہ پہننے والوں کے لیے گالیوں سے بھری زبان کا استعمال کیا ہے۔

ادھر پاکستان کے ایک اور بڑے نیوز چینل اے آر وائی کے پروگرام شامِ رمضان کے میزبان شفاعت علی نے بھی ماسک نہ پہننے والوں کے خلاف ایسی ہی پرتشدد کارروائی کا مشورہ دیا ہے۔

صحافیوں کا کام معاشرے میں آگاہی پھیلانا ہے یا پھر معاشرے کی خامیوں یا برائیوں کو اجاگر کرنا لیکن اس طرح تشدد کا پرچار کر کے صحافتی اصولوں کی کھلے عام خلاف ورزی کی جارہی ہے اور تو اور الیکٹرانک میڈیا کا نگراں ادارہ (پیمرا) بھی ایسی صورتحال میں چپ سادھے بیٹھا ہے حالانکہ ماضی میں چھوٹی چھوٹی بات پر پیمرا نے ٹی وی چینلز کو اظہار وجوہ کے نوٹس بھیجے ہیں اور جرمانے کیے ہیں۔

ذرائع ابلاغ سے منسلک افراد نے اس بات کو نظرانداز کیا ہے کہ ان کی ملازمت تشدد کے لیے اکسانا نہیں بلکہ عوام میں شعور پیدا کرنا ہے اور پاکستان میں تشدد پر اکسانے سے متعلق قوانین بھی موجود ہیں جن کی لپیٹ میں ایسے جوشیلے صحافی آ سکتے ہیں۔

متعلقہ تحاریر