حزب اختلاف بشیر میمن کے الزامات پر قانونی راستہ اختیار کرے
بشیر میمن کے الزامات کے بعد حزب اختلاف نے جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ کردیا ہے لیکن تاحال کسی رہنما نے عدالت کا رخ نہیں کیا ہے۔

پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سابق ڈی جی بشیر میمن کے حکومت کے خلاف الزامات پر حزب اختلاف نے جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا ہے لیکن تاحال عدالت کا رخ نہیں کیا ہے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ حزب اختلاف اگر جوڈیشل کمیشن بنوانے کے لیے سنجیدہ ہے تو بیان بازی کے بجائے قانونی راستہ اختیار کرنا چاہیے۔
بدھ کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیشی کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کے دوران پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے ایف آئی کے سابق سربراہ بشیر میمن کے الزامات کی روشنی میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے متعلق تفتیش کے لیے جوڈیشل کیمشن بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
ابصار عالم الزامات کے بجائے تحقیقات کروانے پر زور دیں
جبکہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں لکھا ہے کہ بشیر میمن کے حیران کن انکشافات نے اس بات کی تائید کی ہے جو ایک طویل عرصے سے کہہ رہا ہوں۔
The startling revelations by former DG FIA have endorsed what I have been saying for a long time: there is an unmistakable NAB-Niazi nexus that has been out to make forged cases against the PMLN & put its leaders behind bars. The farce stands exposed.
— Shehbaz Sharif (@CMShehbaz) April 28, 2021
بشیر میمن کے حکومت پر الزامات کے بعد حزب اختلاف نے جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ تو کردیا ہے لیکن تاحال کسی رہنما نے عدالت کا رخ نہیں کیا ہے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ مریم نواز نے میڈیا سے گفتگو کے دوران جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف جھوٹا ریفرنس بنانے پر جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا ہے جو صرف ایک بیان ہے۔ حزب اختلاف اگر جوڈیشل کمیشن بنوانے کے لیے اتنی ہی سنجیدہ ہے تو بیان بازی کے بجائے قانون کا دروازہ کھٹکھٹانا چاہیے۔

سیاسی مبصرین کے مطابق مریم نواز کو دیگر رہنماؤں کے ساتھ عدالت جا کر اپنے مطالبے کے لیے درخواست دائر کروانی چاہیے کیونکہ اگر بیانات دیے جاتے رہے تو بات بیان بازی تک ہی محدود رہ جائے گی۔
حکومتی ردعمل
ادھر وزیر قانون فروغ نسیم نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ بشیر میمن سے قاضی فائز عیسیٰ سے متعلق کبھی کوئی بات نہیں کی۔ وزیراعظم عمران خان، اعظم خان یا شہزاد اکبر نے مجھے کبھی نہیں بتایا کہ انہوں نے بشیر میمن سے جسٹس فائز عیسیٰ سے متعلق بات کی ہے۔ اعظم خان، شہزاد اکبر اور بشیر میمن کبھی ایک ساتھ میرے دفتر نہیں آئے۔
دوسری جانب شہزاد اکبر نے بشیر میمن کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے انہیں بے بنیاد قرار دیا ہے۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری پیغام میں شہزاد اکبر نے بتایا کہ انہوں نے سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن کی جانب سے لگائے گئے الزامات پر انہیں ہتک عزت کا قانونی نوٹس بھجوا دیا ہے۔
My lawyers have issued legal notice to Bashir Memon for his lies n slanderous accusations with malafide and without any evidence. I firmly believe in rule of law n he shall be answerable before a court of law for his slander. pic.twitter.com/eL7GFXc8jx
— Mirza Shahzad Akbar (@ShazadAkbar) April 28, 2021
شہزاد اکبر نے کہا کہ میرے وکلاء نے بشیر میمن کے جھوٹے اور بے بنیاد الزامات پر جواب طلبی کے لیے انہیں 50 کروڑ روپے ہرجانے کا ہتک عزت کا نوٹس بھیج دیا ہے۔ اس میں انہوں نے ہتک عزت کے کیس 20 لاکھ روپے فیس بھی جرمانے کی ہی مد میں ادا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
نوٹس کے متن میں سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن سے 14 دن میں الزامات واپس لے کر غیر مشروط معافی مانگنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
بشیر میمن کے الزامات
منگل کے روز پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سابق سربراہ بشیر میمن نے نجی چینل جیو نیوز کے پروگرام ’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ وزیراعظم کے مشیر احتساب شہزاد اکبر اور وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے ان پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج کرنے کے لیے دباؤ ڈالا تھا۔

انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف اور نائب صدر مریم نواز کے خلاف مقدمات بنانے پر دباؤ ڈالا جاتا تھا۔ شہباز شریف کے بیٹے اور کیپٹن (ر) صفدر سمیت دیگر مسلم لیگ (ن) رہنماؤں کے خلاف مقدمات کے لیے کہا گیا تھا۔ مریم نواز سے متعلق 3 مختلف اوقات میں دہشتگردی کا مقدمہ درج کرنے کا کہا گیا تھا۔
بشیر میمن نے انکشاف کیا کہ مسلم لیگ (ن) سے شہباز شریف، حمزہ شہباز، مریم اورنگزیب، شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال، رانا ثناءاللہ، جاوید لطیف، خرم دستگیر، پاکستان پیپلزپارٹی سے خورشید شاہ، مصطفیٰ نواز کھوکھر اور نفیسہ شاہ سمیت جو بھی حکومت کے خلاف بات کرتا تھا اس کو پکڑنے اور اس کے خلاف انکوائری کرنے کا دباؤ ڈالا جاتا تھا۔