سحری میں ڈھول بجا کر جگانے کی قدیم روایت

روزے داروں اللہ نبی کے پیاروں جنت کے حق داروں جلدی جلدی اٹھو سحری کا انتظام کرو۔ جاگو! سحری کا وقت ہو گیا ہے۔یہ جملے ہمیں پاکستان میں سحری کے اوقات میں اٹھانے کے لیے اکثر سننے کو ملتے ہیں اور یہی اس خطے کی قدیم روایت ہے۔

پاکستان میں ماہِ رمضان کی اپنی ہی چند قدیم روایات ہیں جن میں سحری کے وقت ڈھول، ڈرم اور لوہے کے ٹین کو بجا کر لوگوں کو جگانا بھی شامل ہے۔

یہ بھی دیکھیے

لاہور میں رمضان کے موقع پر نائٹ گلی کرکٹ عروج پر

سحری میں جگانے کی تاریخ کتنی پرانی ہے؟

ملک کے دیگر علاقوں کی طرح صوبائی دارالحکومت لاہور میں یہ روایت پاکستان بننے سے پہلے کی ہے۔ ماضی کی طرف اگر دیکھیں تو یہ روایت اس وقت کی ہے جب نہ بجلی تھی اور نہ جدید گھڑیاں۔ مساجد کے لاوڈ سپیکر بھی ناپید تھے۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے تک افطاری کے وقت بچے مساجد کے گرد جمع ہوجایا کرتے تھے اور آذان کی آواز سن کر گھروں کی جانب دوڑ لگایا کرتے تھے تاکہ ان کے بڑے بوڑھے روزہ افطار کر سکیں جبکہ اس زمانے میں سحری کے وقت بچوں کے لئے یہ ممکن نہیں ہوا کرتا تھا تو نوجوان اپنے علاقوں میں ٹین کے ڈبے یا ڈھول بجا کر روزہ داروں کو جگایا کرتے تھے۔

اب جدید ترقی کے دور میں تقریباً ہر گھر میں الارم کلاک موجود ہے لہذا سحری کے وقت ڈھول تاشے کی ضرورت نہیں رہی۔ جس کی وجہ سے یہ روایت رو بہ زوال ہے۔ لیکن کچھ علاقوں میں خاص کر اندرون لاہور، سمن آباد ، راجگڑھ، چوبرجی، مزنگ پکی ٹھٹھی سمیت دیگر علاقے شامل ہیں۔

نیوز 360 نے دور جدید کے باوجود رمضان المبارک میں سحری کے لیے جگانے کی قدیم ثقافت کو زندہ رکھنے والے امانت علی سے بات کی تو معلوم ہوا امانت علی پچھلے 15 سال سے لاہور سمن آباد اور اس کے ملحقہ آبادی کے علاقوں میں ٹین کے ڈبے کو بجاتے ہوئے اٹھاتے ہیں۔

امانت علی اپنے مخصوص انداز میں سحری کے وقت اُٹھنے کی سدا لگتے ہیں اور ہر رات 1 بجے پیپہ یعنی ٹین کے ڈبے کو بجاتے ہوئے گلیوں میں آوازیں لگاتے رہتے ہیں۔ امانت علی نے نیوز 360 کو بتایا ’یہی میری زندگی کا مقصد بھی ہو سکتا ہے اور یہی نیکی میری اللہ کے حضور بخشش کا باعث بن جائے۔ یہاں لوگ مجھے سے پیار کرتے ہیں اور آخری عشرے میں پیسے اور عیدی بھی دیتے ہیں۔‘

لوگ بھی امانت علی کی مخصوص سدا  سے اٹھتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ سحری کے وقت ڈھول ڈرم بجا کر اٹھانا قدیمی ثقافت ہے وقت کے ساتھ ساتھ کم ضرور ہوئی مگر آج بھی اس کی اہمیت کم نہیں ہوئی۔

سحری کے اوقات میں ڈھول بجا کر روزہ داروں کو جگانے کی روایت پرانی ہے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں نے ٹیکنالوجی پر زیادہ انحصار کرنا شروع کر دیا، جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے کئی دیگر پرانی روایات کی طرح اسے بھی خطرہ لاحق ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ڈھول بجانے کی یہ روایت کب تک ان حالات کا مقابلہ کر سکتی ہے۔

متعلقہ تحاریر