بیانیے کی جنگ بند کمروں سے نکل کر ٹی وی شوز تک جا پہنچی

مریم نواز اور شہباز شریف کے بیانیے پر اختلافات مشہور ٹی وی شوز میں زیر بحث لائے جانے لگے ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) میں ایک عرصے سے مریم نواز اور شہباز شریف کے بیانیے کے اختلافات سامنے آرہے ہیں۔ جو معاملات پہلے پس پردہ خاموشی سے سلجھا لیے جاتے تھے اب مشہور ٹی وی شوز میں زیر بحث لائے جانے لگے ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف اور ان کے بھائی و پارٹی صدر شہباز شریف سیاست کی دو مختلف انتہاؤں کی نمائندگی کرتی ہے۔ ایک طرف نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بات کرتے نظر آتے ہیں تو دوسری جانب شہباز شریف مفاہمت سے ملک چلانے کی پالیسی کے گن گاتے ہیں۔

کچھ عرصہ پہلے تک یہ معاملات بند کمروں کی آپسی ملاقاتوں اور پارٹی اجلاسوں تک محدود تھے لیکن اب مریم نواز اور شہباز شریف کے بیانیے کے اختلافات شدت اختیار کرتے جارہے ہیں۔ جو معاملات پہلے پس پردہ خاموشی سے سلجھالیے جاتے تھے اب مشہور ٹی وی شوز میں دبے الفاظ میں زیر بحث لائے جاتے ہیں۔

گذشتہ روز معروف اینکر پرسن کامران خان کے پروگرام میں میاں شہباز شریف کو مدعو کیا گیا تو انہوں نے واضح الفاظ میں کہہ دیا کہ پی ڈی ایم میں کسی ایک سیاسی جماعت کی اجارہ داری نہیں چلے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ابھی مریم نواز اور حمزہ شہباز کا وقت نہیں ہے، آگے ان کا وقت آسکتا ہے لیکن ابھی انہیں تربیت کی ضرورت ہے۔ ابھی ان کے والدین موجود ہیں اور پارٹی کے باگ ڈور ان کے پاس ہے۔

یہ بھی پڑھیے

شہباز شریف مسلم لیگ (ن) میں تفریق کا باعث؟

دوسری جانب جیو نیوز کے معروف اینکر پرسن شاہ زیب خانزادہ مریم نواز کے نمائندہ بن گئے اور پروگرام میں ان کا موقف سامنے رکھ دیا۔ انہوں نے واضح طور پر بتایا کہ مریم نواز کا کہنا ہے کہ اگر انہیں خاموش کرادیا جائے تو کیا ہوگا؟ حالات میں جو بہتری آئی ہے وہ نرمی اور مصلحت سے نہیں بلکہ نواز شریف کے بیانیے کی وجہ سے آئی ہے۔ مفاہمت اور مصلحت سے مسائل حل ہونے ہوتے تو حمزہ شہباز اور شہباز شریف جیل نہ جاتے۔ مفاہمت سے راستہ نکلنا ہوتا تو اب تک نکل جاتا۔

شاہ زیب خانزادہ نے مریم نواز کے الفاظ بیان کیے کہ وہ ڈائیلاگ کی مخالف نہیں مگر ڈیل کی مخالف ہیں۔ مریم نواز کے مطابق شہباز شریف کی اپنی ایک رائے ہوتی ہے لیکن وہ کرتے وہی ہیں جو نواز شریف چاہتے ہیں۔

شاہ زیب خانزادہ نے مسلم لیگ (ن) کے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ پی ڈی ایم میں پاکستان پیپلز پارٹی کی شمولیت کے حوالے سے بھی دو رائے ہیں۔ شہباز شریف پیپلز پارٹی کو پی ڈی ایم میں واپس لانا چاہتے ہیں جبکہ دوسرے گروپ کی رائے اس سے مختلف ہے۔ پارٹی کے سینیئر رہنما یہ چاہتے ہیں کہ نواز شریف خود فیصلہ کریں کہ مستقبل میں پارٹی کی قیادت کون سنبھالے گا اور پارٹی میں کس کا بیانیہ چلے گا۔

متعلقہ تحاریر