انتخابی اصلاحات اور آئینی ترامیم

کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ سنجیدگی سے نظام چلایا گیا تو آئندہ انتخابات شفاف ہوں گے۔ صدر پلڈاٹ نے الیکٹرونک ووٹنگ پر تحفظات کا اظہار کردیا۔

پاکستان میں انتخابات میں شکست کھانے والی جماعتوں کا ‘دھاندلی’ کا رونا کوئی نئی بات نہیں ہے۔گلگت بلتستان کے انتخابات میں بھی حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے ایسے ہی الزامات لگائے ہیں۔ لیکن حکمران جماعت نے اب انتخابی اصلاحات لانے کا اعلان کردیا ہے۔

اصلاحات کے تحت مستقبل میں الیکٹرونک ووٹنگ، سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ ڈالنے کا حق دینے اور سینیٹ کے انتخاب میں خفیہ رائے شماری کی بجائے ‘شو آف ہینڈ’ کا طریقہ کار اپنانے کی تجویز دی گئی ہے۔

وزیراعظم عمران خان کے مطابق سینیٹ اور آزاد جموں و کشمیر کے انتخاب اسی طریقہ کار کے تحت کرایا جائےگا۔ ان تمام انتخابی اصلاحات کو رائج کرنے کے لیے آئین میں ترمیم کرنی ہوگی۔ اِس  کے لیے دو تہائی اکثریت درکار ہو گی۔

نیوز 360 سے گفتگو کرتے ہوئے سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے کہا کہ اگر حکومت اس نظام کو سنجیدگی سے آگے بڑھائے گی تو آئندہ انتخابات شفاف ہوں گے۔

آئینی ترامیم

الیکٹرونک ووٹنگ میں دھاندلی کے بارے میں کنور دلشاد نے کہا کہ پوری دنیا میں یہ طریقہ کار کامیاب ہے۔ لیکن ٹیمپرنگ کی گنجائش تو ہر جگہ رہتی ہے۔ اُن کے مطابق ”انڈیا میں الیکٹرونک ووٹنگ کے ذریعے ٹیمپرنگ کی شکایات سامنے آئیں لیکن مجموعی طور پر یہ طریقہ کامیاب رہا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے الیکٹرونک ووٹنگ پر کافی کام کیا جاچکا ہے۔ پاکستان کی الیکٹرونک ووٹنگ مشین میں ووٹر کی معلومات ڈیجیٹل طریقے سے عملے کے پاس پہنچیں گی جہاں سے باقاعدہ رسید بھی نکالی جائے گی۔

کنور دلشاد کے مطابق ”یہ طریقہ انڈیا کے پیپرلیس طریقے سے مختلف ہے جس کے باعث ٹیمپرنگ کا خدشہ کم ہوجائے گا۔

یہ بھی پڑھیے

گلگت بلتستان کے انتخابی نتائج سرویز کے عین مطابق

انتخابی عمل پر نظر رکھنے والے غیر سرکاری ادارے پلڈاٹ کے صدر احمد بلال محبوب نے نیوز 360 سے گفتگو میں کہا کہ دنیا بھر میں یہ طریقہ کار رائج ہے لیکن سوالات پھر بھی اٹھتے ہیں۔

اُنہوں نے کہا کہ الیکٹرونک ووٹنگ میشن کے ذریعے جوڑ توڑ کیا جاسکتا ہے لیکن سینیٹ کے انتخاب میں خفیہ رائے شماری بہتر طریقہ ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ انتخابی اصلاحات کے لیے حزب اختلاف کی جماعتیں حمایت یا مخالفت جو بھی فیصلہ کریں سوچ سمجھ کرکریں۔ صرف پی ٹی آئی کی مخالفت میں آئینی ترمیم سے انکار نہیں کرنا چاہیے۔

صدر پلڈاٹ نے مزید کہا کہ اگر حزبِ اختلاف آئینی ترمیم کے لیے راضی نہیں ہوتی تو حکومت کو بات چیت کے ذریعے حزب اختلاف کو اعتماد میں لینا ہوگا۔ اس سلسلے میں معاملات سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے۔

متعلقہ تحاریر