پیپلز پارٹی اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ سے دور کیوں رہنا چاہتی ہے؟

پیپلز پارٹی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کسی بڑے تنازع کے حق میں نہیں ہے ، جبکہ نواز لیگ تنازعات اور دباؤ دونوں کو برقرار رکھنے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے

آج کراچی میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے دوسرے شو ڈاون سے پہلے ہی ریلی کے میزبان بلاول بھٹو زرداری نے تمام شرکاء کو پیشگی خبردار کیا ہے کہ وہ اپنے زیر انتظام پروگرام میں فوجی سربراہاں کے خلاف بات نہ کریں۔ ۔ سیاسی طورپریہ بات واضح ہے کہ پاکستان مسلم لیگ نواز کے مقابلے میں پاکستان پیپلز پارٹی کا موقف مفاھمت سے مالا مال ہے اور وہ اسٹیبلشمینٹ سے کسی طور بڑا جگھڑا مول لینے کے حق میں نہیں، تاہم نواز لیگ کے سیاسی حالات اسے جس مقام پر لیکر آئے ہیں، وہاں مفاہمت ان کی سیاسی موت کا بھی باعث بن سکتی ہے۔

آج سے آٹھ ماہ قبل جب نواز شریف کے بیماری کی باتیں عروج پر تھیں تب نواز لیگ نے نواز شریف اور مریم نواز کے ووٹ کو عزت دو یا مزاحمت والے بیانئے کو پس پشت ڈال کر شھباز کے مفاہمتی بیانئے کو اپنا لیا تھا، تاہم پی ٹی آئی سرکار کی جانب سے مسلسل گرفتاریوں اور سیاسی حزیمت نے پی ایم ایل این کو ایک بار پھر اس موڑ پر لاکر کھڑا کردیا، جہاں وہ سیاسی خاموشی اور حزیمت ایک ساتھ مینٹین نہیں کرسکتے تھے، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے آخرکار مفاہمتی خاموشی کو ترک کیا اور بل آخر دوبارہ بولنے کو ترجیح دی، جس کا عکس اے پی سی سے لیکر گذشتہ روز گجرانوالہ جلسے تک واضح طور پر دیکھا گیا۔

تاہم گجرانوالہ جلسہ نواز لیگ کی میزبانی میں ہوا تھا، جہاں وہ جو چاہے کرتے، جو چاہے بولتے مگر آج کراچی میں وہ محض جلسے میں مہمان ہیں اور وہ سب کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں، جو آزادی انہیں اپنے سیاسی حلقے میں موجود تھی۔ آج پیپلزپارٹی کی میزبانی میں ہونے والےسیاسی شو کو اسی طرح ڈرائیو کیا جائے گا، جس طرح پیپلز پارٹی چاہتی ہے، یا یوں کہیے کہ جس طرح آصف علی زرداری چاہتے ہیں۔ پیپلز پارٹی جانتی ہے کہ اگر انکے سیاسی شو میں نواز لیگ نے اسٹیبلشمینٹ کے خلاف اپنی مزاحمتی تحریک کو زبردستی شامل کیا تو یہ بات انکےسیاسی عزائم کے لئے نقصانکار ہوسکتی ہے، کیونکہ پیپلز پارٹی واضح طور پر پی ڈی ایم کوعمران مخالف رکھنا چاہتی ہے۔ وہ اسے کسی طور اینٹی اسٹیبلشمینٹ بناکر اپنی گلے میں نواز لیگ کا طوق نہیں ڈالنا چاہتی۔ دوسری جانب حکومتی ایوانوں سے پی ڈی ایم کی دو اہم جماعتوں میں نواز شریف کی تقریر اور موقف کے حوالے سے فرق کو بارش کے پہلے قطرے سے تعبیر کیا گیا ہے۔

سیاسی پنڈتوں کا ماننا ہے کہ پیپلز پارٹی اپنی سیاسی ابجد کے ذریعے حساب کتاب لگاکر یہ جان چکی ہے کہ وہ کبھی بھی سندہ سے جیتی جانی والی سیٹوں کی بنیاد پر وفاق میں سرکار نہیں بناسکتی۔ کیوںکہ زرداری کی سربراہی میں چلنے والی پاکستان پیپلزپارٹی الیکٹورل مینیپولیشن کے ذریعے سندہ کو تو اپنے گڑہ کے طور پر قائم رکھ سکتی ہے تاہم انکے لئے پاکستان کے بڑے صوبے پنجاب میں وہ پذیرائی حاصل نہیں، کہ وہ جس کی بنیاد پرسیمپل میجارٹی حاصل کرکے وفاق میں اپنی حکومت بناسکیں۔ انہیں معلوم ہے کہ وہ صرف اسٹیبلشمینٹ کے آشیرواد سے ہی اقتدار کے ایوانوں میں مرکزی مقام حاصل کرسکتے ہیں اور جس کے لئے وہ اس وقت کوشاں دکھائی دیتے ہیں۔

پیپلز پارٹی کو معلوم ہے کہ عمران خان کی حکومت سے روانگی کے بعد اسٹیبلشمینٹ کسی طور پر نواز لیگ کو ترجیح نہیں دے گی۔ اس لئے ان کےلئے یہ اقتدار میں آنے کا نادر موقع ہوگا۔ انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ پنجاب سے پی ٹی آئی سے ناراض الیکٹبلز ان کی طرف موڑے جاسکتے ہیں، جنہوں ملاکر وہ اگلے سیٹ اپ کو لیڈ کرسکتے ہیں۔ اس لئے وہ کسی طور اسٹیبلشمینٹ سے ایسی محاذ آرائی نہیں چاہتے، جس کی بنیاد پر ن لیگ کی طرح انہیں بھی گندے انڈے قرار دیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری نے اپنی میزبانی میں ہونے والے جلسے کے ضابطہ اخلاق بیان کرتے ہوئے تنقید کو محض عمران سرکار تک محدود رکھنے تک کا واضح پیغام باقی شرکاء تک پہنچادیا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ آصف علی زرداری اور انکی ہمشیرہ سمیت بیشتر پیپلزپارٹی قاعدین پر کیسز کی بھرمار ہے، جن سے جان جلد از جلد جان چھڑانا بھی مقصود ہے اور وہ بھی مزاحمتی موڈ سے نہیں مفاہمتی معاملات کے ذریعے ممکن ہوسکتا ہے۔

اس کے علاوہ سندہ سرکار کا معاملہ بھی ہے، جس کی تیرہ سالہ ناکام کارکردگی پیپلزپارٹی کے گلے میں کانٹے کی طرح اٹکی ہوئی ہے۔ وہ اپنی بدترین حکمرانی کی وجہ سے ناکامی اور کرپشن کی ایک ایسی علامت بن چکے ہیں، جس کی ملکی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس لئے اس بنیاد پر ان پر گورنر راج اور وفاقی سرکار کی براہ راست صوبے کے معاملات چلانے والی بات سے بھی جان چھڑانی ہے، سو پیپلزپارٹی ایک تیر سے کئی شکار کے چکر میں ہے۔وہ کسی طرح سے نواز لیگ کے جذبات سے بھرے سیاسی بیانئے کے حق میں نہیں اور آج کا کوڈ آف کنڈکٹ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

یہ بھی تاریخ کا عجیب سلسلہ ہے کہ آج سے تیس چالیس برس قبل جو جماعت اینٹی اسٹیبلشمینٹ تصور کی جاتی وہ آج سیاسی طورپر اسٹیبلشمینٹ کے قریب رہنا چاہتی ہے اور اسے چلانے والے اسے مزید اس طرف گھسیٹ رہے ہیں، جبکہ جو جماعت نامی گرامی بغل بچہ تھی، وہ آج گلے میں پھنسے ہوئے کانٹے کی طرح بن چکی ہے۔

ویسے بلاول بھٹو زرداری نے اپنی سیاسی ضرورت کے تحت اس بات کو مکمل بھلادیا ہے کہ انکی والدہ محترمہ اینٹی اسٹیبلشمینٹ تقاریر اور اپروچ کی وجہ سے ہی "محترمہ بینظیر بھٹو” بنی تھیں اور آج ںواز شریف بھی اپنے سیاسی گناہوں کو دھونے کا کام اسی اپروچ کے تحت کررہے ہیں۔

 

 

 

 

متعلقہ تحاریر