ملک میں کوئی مقدس گائے نہیں ، عدالت حکم دے ایکشن لیں گے، وزیراعظم

سانحہ اے پی ایس کیس میں وزیراعظم عمران خان سپریم کورٹ میں پیش،انصاف کے تقاضے پورے کرنیکی یقین دہانی کرا دی۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے سانحہ اے پی ایس کیس کی سماعت جاری ہے۔ وزیراعظم عمران خان سپریم کورٹ کے حکم پر عدالت میں پیش ہو گئے ۔ وزیراعظم ججز گیٹ سے سپریم کورٹ کے احاطے میں داخل ہوئے اور کمرہ عدالت میں روسٹرم میں پہنچ گئے۔

چیف جسٹس سپریم کورٹ  گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ سانحہ اے پی ایس کیس کی سماعت کررہا ہے۔ بینچ کے دیگر ججز میں جسٹس اعجازالحسن اور جسٹس قاضی امین شامل ہیں۔

سماعت کے دوران وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ سپریم کورٹ ہمیں حکم دے ہم ایکشن لیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں۔ ملک میں کوئی مقدس گائے نہیں ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ یہ بھی پتالگائیں کے 80 ہزار افراد کیوں قتل ہوئے ، پتا لگایا جائے ملک کے اندر 480 ڈورن حملے کیوں کیے گئے۔ چیف جسٹس نے وزیراعظم سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ وزیراعظم ہیں آپ ایکشن لیں۔ وزیراعظم صاحب آپ کے پاس اختیار ہے آپ سارے سوالوں کے جواب دینے کے پابند ہیں۔

چیف جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا ہم نے 20 اکتوبر کو جو حکم دیا تھا اس کے مطابق ذمہ داروں کو تعین کیا جائے۔ سانحہ 2014 میں پیش آیا رپورٹ 2019 میں پیش کی گئی۔

یہ بھی پڑھیے

نواز شریف کی لاہور کی جائیداد 10 روز بعد نیلام کی جائے گی

وزیراعظم نے ایک بار پھر دنیا کو افغانستان میں ‘انسانی بحران’ سے خبردار کردیا

چیف جسٹس گلزار احمد نے وزیراعظم سے استفسار کیا کہ ریاست نے بچوں کے والدین کو انصاف دلانے کے لیے کیا کیا؟

وزیراعظم عمران خان نے جواب دیا کہ جب یہ واقعہ ہوا تو میں فورا پشاور پہنچا، حالانکہ میں  تو اس وقت حکومت میں نہیں تھا

چیف جسٹس نے پوچھا کہ اب تو آپ اقتدار میں ہیں، مجرموں کو کٹہرے میں لانے کے لیے آپ نے کیا کیا؟

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ آپ مجھے بات کرنے کا موقع دیں میں ایک ایک کرکے وضاحت کرتا ہوں، ہماری سانحہ کے وقت صوبہ میں حکومت تھی، ہر ممکن اقدامات اٹھائے۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ہمیں آپکے پالیسی فیصلوں سے کوئی سروکار نہیں، ہم یہ پوچھ رہے ہیں کہ اتنے سال گزرنے کے بعد بھی مجرموں کا سراغ کیوں نہ لگایا جا سکا۔ سپریم کورٹ نے استفسار کیا کہ آپ نے آگے کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں۔

جسٹس قاضی امین نے استفسار کیا ہے کہ ہمارے پاس میڈیا رپورٹس ہیں کہ آپ لوگ ان لوگوں کے ساتھ مذاکرات کررہے ہیں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے سوال اٹھایا کہ اب تک رپورٹس کے مطابق ذمہ داران کے خلاف کوئی خاص اقدام نہیں اٹھائے گئے ہیں۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے دوران سماعت کہا آئین پاکستان میں عوام کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے۔

وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ 80 ہزار لوگ دہشتگردی کی جنگ میں شہید ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اس وقت کہا تھا یہ امریکہ کی جنگ ہے، ہمیں مداخلت نہیں کرنی چاہیے، میں نے کہا تھا ہمیں نیوٹرل رہنا چاہیے، ہمارا نائن الیون سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہمیں پتہ ہی نہیں تھا کہ دوست کون اور دشمن کون ہے۔

جسٹس قاضی امین نے کہا کہ ماضی میں جانے کی ضرورت نہیں، آپ وزیراعظم ہیں، ہم آپکا احترام کرتے ہیں، یہ بتائیں کہ سانحہ کے بعد اب تک کیا اقدامات اٹھائے۔

وزیراعظم نے جواب دیا کہ ہم نے سانحہ کے بعد نیشنل ایکشن پلان بنایا، ہم جنگ اس لیے جیتے کہ پوری قوم پاک فوج کیساتھ کھڑی رہی، ہم نے نیشنل انٹیلیجنس کوارڈینشن کمیٹی بنائی جو معاملہ کو دیکھ رہی ہے۔

گذشتہ سے پیوستہ

چیف جسٹس گلزار احمد نے سانحہ اے پی ایس کیس کی سماعت کے دوران وزیراعظم عمران خان کو عدالت میں پیش ہو کر صفائی دینے کے لیے طلب کیا تھا۔

اس سے قبل سماعت کے دوران چیف جسٹس گلزار احمد نے حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ وزیراعظم کو طلب کیا جائے ان سے خود بات کریں گے۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا وزیراعظم نے عدالتی حکم پڑھا تھا؟

اٹارنی جنرل نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ وزیراعظم کو سمن نہیں بھیجا تھا۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب یہ سنجیدگی کا عالم ہے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان میں سانحہ اے پی ایس ازخود نوٹس کیس کی سماعت جاری ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کو بلائیں ایسے نہیں چلے گا۔ کیا سابقہ آرمی چیف اور دیگر ذمہ داران کے خلاف مقدمات درج ہوئے ہیں؟

اس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ سابق آرمی  چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے خلاف کوئی فائنڈنگ سامنے نہیں آئی تھی۔ دوران سماعت کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کا تذکرہ ہوا۔

جسٹس قاضی امین کا کہنا تھا کہ اطلاعات ہیں کہ حکومت کسی کالعدم تئظیم کے ساتھ مذاکرات کررہی ہے۔ کیا  اصل مجرموں تک پہنچنا اور انہیں پکڑنا ریاست کا کام نہیں ہے؟ بچوں کو اسکولوں میں مرنے کے لیے نہیں چھوڑ سکتے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا تحقیقاتی اداروں نے چوکیداروں اور سپاہیوں کے خلاف کارروائی کردی۔ اصل میں تو کارروائی اوپر سے ہونی چاہیے تھی، اوپر والے تنخواہیں اور مراعات لے کر چلے جاتے ہیں۔

چیف جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ یہ ممکن نہیں کہ دہشتگردوں کو اندر سے سپورٹ نہ ملی ہو۔ انہوں نے کہا کہ اپنے لوگوں کے تحفظ کے بات ہوتی ہے تو انٹیلی جنس کہاں چلی جاتی ہے۔

چیف جسٹس گلزار احمد کا کہناتھا کہ اتنا بڑا انٹیلی جنس ادارہ ہے جس پر اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں، اور یہ دعویٰ بھی کیا جاتا ہے کہ ہم دنیا کی بہترین انٹیلی جنس ایجنسی ہیں، انٹیلی جنس پر اتنا خرچ ہورہا مگر نتائج پھر بھی صفر ہیں۔

جسٹس اعجاز الحسن کا کہنا تھا کہ اداروں کو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ قبائلی علاقوں میں آپریشن کا کیا ردعمل آسکتا ہے۔ سب سے نازک اور آسان ہدف اسکول کے بچے تھے۔

متعلقہ تحاریر