پشاور میں طالبات کا ہراسگی کے خلاف احتجاج

جمعے کے روزاسلامیہ کالج یونیورسٹی کی طالبات نے یونیورسٹی انتظامیہ کے خلاف احتجاجی ریلی نکالی

پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے درالحکومت پشاور میں تعلیم  کے حصول کے لیے گھر سے نکلنے والی لڑکیاں ہراسگی کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں۔ پشاور کے تعلیمی اداروں میں طالبات کو ہراساں کرنے کے واقعات دن بہ دن بڑھتے جارہے ہیں۔

گزشتہ چند سالوں میں متعدد جامعات کے اساتذہ کے خلاف جنسی ہراس کی شکایات درج کی گئی ہیں۔ بیشتر کو باقاعدہ تحقیقات کے بعد ملازمتوں سے برطرف بھی کیا گیا ہے۔

اِس معاملے میں تا حال ایسے اقدامات نہیں کیے گئے ہیں جن سے اِن واقعات میں ملوث افراد کو کڑی سزا دی جاسکے۔

خیبرپختونخواہ میں ہراسگی کے واقعات سب سے پہلے 2010ء میں رپورٹ ہونا شروع ہوئے۔ اب ان واقعات کی تعداد دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے۔

جمعے کے روزاسلامیہ کالج یونیورسٹی کی طالبات نے یونیورسٹی انتظامیہ کے خلاف احتجاجی ریلی نکالی۔ مظاہرین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ یونیورسٹی میں سمسٹر، ریسرچ تھیسز اور زیادہ نمبروں کا لالچ دے کر ہراساں کرنےکے سلسلے کو ختم کرنے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔

یہ بھی پڑھیے

این آئی سی وی ڈی میں عہدوں کی بندر بانٹ

اس سے قبل کسی بھی معاملے میں طالبات خود سڑکوں پر نہیں آئی ہیں۔ صوبے میں ہراسگی کے بڑھتے واقعات کے پیش نظر سول سوسائٹی بھی سراپا احتجاج ہے۔ جبکہ صوبائی محتسب کے دفتر میں بھی ان واقعات کی شکایت کی جا چکی ہے۔

متاثرہ طالبات کی نشاندہی پر ملوث افراد کو نوٹسز جاری کردیئے گیے ہیں۔ جس کے بعد ان اداروں میں کیمرے نصب کرنے کی منظوری دی گئی ہے۔ دفاتراورکلاس رومز کے دروازوں میں ایسے شیشے لگانے کی منظوری دی گئی ہے جن کے آر پار دیکھا جاسکے۔

اِسی تناظر میں خیبرپختونخواہ اسمبلی میں پیپلزپارٹی کی رکن اسمبلی نگہت یاسمین اورکزی نے جامعات میں طالبات کی ہراسگی سے متعلق توجہ دلاؤ نوٹس بھی جمع کرادیا ہے۔ انہوں نے حکومت سے کمیٹی بنانے کا مطالبہ بھی کردیا ہے۔

رکن صوبائی اسمبلی کا کہنا ہے کہ توجہ دلاؤ نوٹس کا بنیادی مقصد تعلیمی اداروں میں خواتین کے ساتھ ہونے والے ہراسگی کے واقعات کو ختم کرناہے۔ اس گھناؤنے جرم میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچایا جانا چاہیے۔

نیوز 360 سے گفتگو کرتے ہوئے رکن صوبائی اسمبلی نے کہا کہ ‘ہراسگی کے واقعات میں ملوث افراد کو ملازمت سے فارغ کرنا کافی نہیں۔ جب تک انہیں بےنقاب نہیں کیا جائے گا اس طرح کے واقعات کم نہیں ہوں گے’۔

انہوں نے کہا کہ ‘2010ء میں  پہلی بار جامعات میں طالبات کو ہراساں کرنے واقعات سامنے آنے سے لے کر اب تک میں مسلسل اس مسئلے کے خلاف آواز اٹھارہی ہوں۔ لیکن موثر قانون سازی نہ ہونے اور سیاسی مداخلت سے اکثر کیسز میں لڑکیوں کے ساتھ انصاف نہیں ہو پاتا۔’

انہوں نے کہا کہ ‘2014ء میں اس مسئلے پر باقاعدہ کمیٹیاں بھی بنائی گئیں۔ لیکن بدقسمتی سے بدنامی کے خوف سے خواتین سامنے آنے کی ہمت نہیں کرپائیں۔’

اُن کے مطابق جنسی ہراس کے معاملے کو معمول کی کارروائی کر کے کیسز کو نمٹایا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہراسگی کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔

انہوں نے اسلامیہ کالج یونیورسٹی میں طالبات کے ساتھ ہونے والے ہراسگی کے واقعات کے حوالے سے کہا کہ ‘اب بہت ضروری ہوگیا ہے کہ عملی اقدامات مزید تیز کیے جائیں۔’

خیبرپختونخواہ میں اعدادوشمارکے مطابق 9 ماہ کے دوران ہراسگی کے ساتھ ساتھ جنسی تشدد کے 129 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ ان واقعات میں خواتین کو گھروں میں کام کے دوران تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کے علاوہ تعلیمی اداروں میں طالبات کو ہراساں کیے جانے کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

کراچی کا اسکول کھنڈرات کا منظر پیش کرنے لگا

متعلقہ تحاریر