کراچی میں بیروزگار میڈیا ورکر کی مہنگائی سے تنگ آکر خودکشی

فہیم مغل کو ایک سال قبل ایکسپریس میڈیا گروپ نے نوکری سے نکال دیا تھا، 5بیٹیوں،ایک بیٹے اور بیوہ کوسوگوار چھوڑ گئے

کراچی میں بیروزگار میڈیا ورکر محمد فہیم مغل نے مہنگائی اور پٹرول کی ہڑتال سے تنگ آکر خودکشی کرلی۔

سوشل میڈیا پر زیرگردش اطلاعات کے مطابق  فہیم مغل ایکسپریس میڈیا گروپ سے  بطور پروڈکشن آپریٹر وابستہ تھے تاہم ایک سال قبل انہیں نوکری سے نکال دیا گیاتھا۔
یہ بھی پڑھیے

میڈیا چند ہاتھوں میں ہونے سے پاکستان کا بڑا نقصان ہورہا ہے،فواد چوہدری

میڈیا ورکرز کی تنخواہیں اور بقایہ جات قانون کے دائرے میں آئیں گے

 فہیم مغل نے بینک سے 60 ہزار روپے قرض لے کر انہوں نے رکشہ خریدا تھا، تاہم روز بروز بڑھتی مہنگائی اور  پٹرول کی بڑھتی قیمتوں  کے باعث وہ شدید پریشان تھے جس کا اظہار انہوں نے   متعدد مرتبہ سوشل میڈیا پوسٹس میں بھی کیا۔تاہم  گزشتہ روز ہونے والی پٹرولیم ڈیلرز کی ہڑتال کے باعث تنگ آکر فہیم مغل نے اپنے فلیٹ دوپٹے سے پھندا لگاکر زندگی کا خاتمہ کرلیا۔مرحوم  نے 5 بیٹیوں،ایک بیٹے اور بیوہ کو سوگوار چھوڑا ہے۔

سماجی کارکن ظفر عباس رات گئے مرحوم کے گھر پہنچے۔ ظفر عباس نے بتایا کہ جب ہم بولتے ہیں کہ لوگ بیروز گار ہورہے ہیں، لوگوں میں ذہنی دباؤ بڑھ رہا ہے تو وزرا اور امرا کہتے ہیں کہ پھر بازاروں میں رش کیسا ہے۔انہوں نے بتایا کہ فہیم مغل بھی  کراچی کے معروف شاپنگ سینٹر لکی ون کے بالکل سامنے فلیٹ میں رہتے تھے۔

فہیم مغل کی بیٹی نے بتایا کہ ہم ایک ایک ہفتہ کھانا نہیں کھاتےتھے ،ان کے والد جے ڈی سی سے کھانا لے کر آتے تھے۔مرحوم کی بیوہ نے بتایا کہ ان پر 70 ہزار روپے کا قرضہ تھا جس کی وجہ سے وہ پریشان تھے۔ ظفر عباس نے حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ  آپ نے آٹا،چینی اور پٹرول  3 گنا مہنگا کردیا، ایک غریب آدمی کا بجٹ نہیں بن پارہا، لوگ کس طرح زندہ رہیں گے۔انہوں نے  فہیم مغل کے بچوں کے تعلیمی اخراجات،مکان کے کرائے اور راشن کی ذمے داری لینے کا اعلان کیا ہے۔

بیروز گار میڈیا ورکر فہیم مغل کی خودکشی کی خبر سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی اور صحافتی حلقوں اور سیاسی رہنماؤں کی جانب سے نوجوان میڈیا ورکر کی موت پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہاکیا گیا ہے۔مسلم لیگ ن کے اقلیتی رکن قومی اسمبلی کھیئل داس کوہستانی نے فہیم مغل کی موت پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔سینئر صحافی اور اینکر پرسن حامد میر نے کھیئل داس کی پوسٹ پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے واقعے کو بہت افسوسناک قرار دیا۔

سینئر صحافی سلیم صافی نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ  دوسروں کےعلاوہ فہیم کی موت کےذمہ دارہم میڈیاوالےبھی ہیں جنہوں نےاس منحوس تبدیلی کوبرپاکرنےکےلئےافراط وتفریط سےکام لےکر سیاست اورصحافت کورسوا کیا۔جمعہ کےاس مبارک دن وہ سب میڈیا پرسنزاپنےجرم کااعتراف کرکےاللہ

اورقوم سےمعافی مانگیں تاکہ روزقیامت فہیم جیسوں کاسامناکرنےکےقابل ہوسکیں۔

سینئر صحافی فیض اللہ خان نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ  ایکسپریس گروپ کو نواز شریف کے دور میں لگ بھگ ایک ارب کے اشتہارات ملے بہت بڑا گروپ ہے مگر پھر بھی صحافیوں کو بیروزگار کیا کراچی کا محمد فہیم بھی انہی میں سے ایک تھا آج اپنی بیٹیوں کو سنگدل دنیا کے حوالے کرکے خودکشی کرگیا ۔

 سینئر صحافی  وقار ستی نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ دریائے فرات کے کنارے کی مثالیں دینے والےحاکم کےدورمیں ایکسپریس میڈیا گروپ سے بےروزگار ہونےوالے کراچی کے گرافک ڈیزائنر محمد فہیم نےملازمت جانے کےبعد رکشہ چلایا ،محنت مزدوری کی اور پھر حالات سے تنگ آ کرخودکشی کرلی ۔اس ریاست مدینہ میں اس موت کا ذمہ دارکون ہے؟

سینئر صحافی علی عمران جونیئر نے بھی فہیم مغل کی موت پر اپنے گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا۔انہوں نے لکھا کہ  فہیم کو آخری مرتبہ  ایکسپریس اخبار نے نوکری سے نکال دیا تھا اوریہ  کافی عرصہ سے بے روزگار تھا، سگے رشتہ داروں نے بھی برے وقت میں ساتھ نہ دیا تو اس نے اپنی زندگی تمام کرلی۔

سینئر صحافی آصف علی سید نے صحافی رہنماؤں اور میڈیا مالکان کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا کہ  فضول اینکرز اور نام نہاد تجزیہ کاروں کو چالیس چالیس لاکھ تنخواہیں دیتے ہیں لیکن ایک غریب ورکر کی بیس سے تیس ہزار تنخواہ دیتے ہوئے ان میڈیا مالکان کو موت آجاتی ہے۔ موت تو ان میڈیا مالکان کو بھی آنی ہے پھر جب اللہ کے سامنے فہیم جیسے خودکشی کرنے والے میڈیا ورکرز ان کا دامن پکڑیں گے تو کہیں بچت کا راستہ نہیں ملے گا۔

جیو نیوز سے وابستہ رہنے والی سینئر صحافی نادیہ فاروق نے فہیم مغل کی موت کو قتل قراردے دیا۔


اے آر وائی نیو ز سے وابستہ سینئر صحافی اصغر عمر نے اپنی فیس بک پوسٹ میں فہیم مغل کی تصویر کے ساتھ اپنے جذباتی پیغام میں لکھا کہ
کیا اکیلا فہیم مغل ہی بیروزگار ہوا؟ کیا مکان کے کرائے، بچیوں کے دکھ، اسکولوں کی فیسوں کے مسائل صرف فہیم مغل کے ساتھ تھے اور اسکا چراغ حیات بجھتے ہی چار سو امن و سکون اورخوشحالی کا سورج چمکنے لگا ہے، یقینا ایسا نہیں ہے۔۔۔تو پھر اپنے اردگرد اپنے ساتھیوں کودیکھیے، ان سے ملیے ۔ان کے مسائل کی شدت کا اندازہ کیجیے، ہر فرد کی کہانی مختلف اور دوسروں سے علیحدہ ہوتی ہے۔فہم مغل کے راستے پر دبے پاوں چلنے والوں کو تلاش کیجیے، ایک بار پھر صحافی قیادت مل بیٹھے، نئے حالات میں جینے کا نیا لائحہ عمل بنائے۔

متعلقہ تحاریر