سری لنکن مینجر کا قتل ، عمران خان حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سیالکوٹ واقعے میں ملوث ملزمان کو کیفرکردار تک نہ پہنچایا گیا تو آنے والے وقتوں میں ایسے واقعات کو روکنا مشکل ترین ہو جائے گا۔

صوبہ پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں فیکٹری ملازمین کی جانب سے سری لنکن مینجر کا بہیمانہ قتل عمران خان حکومت کے لیے بڑا چیلنج بن گیا ہے۔ کیا وزیراعظم متاثرہ خاندان اور سری لنکن حکومت کو انصاف دلوا پائیں گے۔؟

گذشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر سری لنکن مینجر کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے لکھا تھا کہ "سیالکوٹ کی فیکٹری میں بہیمانہ تشدد کرکے سری لنکن مینجر کو قتل کرکے جلایا گیا جو پاکستان کے لیے شرم کا دن ہے۔

یہ بھی پڑھیے

سیالکوٹ کی کاروباری شخصیات نے غیرملکی شہری کے قتل کی مذمت کردی

مذہبی جنونی کیا پاکستان کی سیاسی لیڈرشپ بھی جلاؤ گھیراؤ پر مُصر

انہوں نےمزید لکھا ہے کہ "میں خود تحقیقات کی نگرانی کروں گا اور کوئی غلطی نہیں ہونے پائے گی ذمہ داروں کو قانون کے مطابق سزا دی جائے گی۔ گرفتاریاں جاری ہیں۔”

وزیراعظم عمران خان نے سری لنکن صدر گوتا بایا راجا پاکسا سے ٹیلی فونک رابطہ کیا اور سیالکوٹ میں مینجر کے قتل کے حوالے سے پاکستانی قوم میں پائے جانے والے غم و غصے سے آگاہ کیا۔

وزیراعظم نے سری لنکن صدر کو یقین دلایا کہ سری لنکن مینجر کے قتل میں ملوث افراد کے خلاف سخت سے سخت ایکش لیا جائے گا۔ انہوں نے صدر گوتا بایا راجا پاکسا کو بتایا کہ وہ اس کیس کی خودنگرانی کررہے ہیں۔

اس سے قبل سری لنکا کے وزیراعظم نے وزیراعظم عمران خان سے ٹیلی فونک رابطہ کرکے شدید دکھ اور غم کا اظہار کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا ہمیں یقین ہے کہ حکومت پاکستان انصاف کی فراہمی میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرے گی۔

وزیراعظم عمران خان کے سخت احکامات کی روشنی میں آئی جی پنجاب راؤ سردار علی کی سربراہی میں پولیس کی جانب سے چھاپوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ تادم تحریر 13 مرکزی ملزماان سمیت ڈھائی سو زیادہ گرفتاریاں ہو چکی ہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے حکومت کو سخت اقدامات کرنے ہوں گے۔ عمران خان حکومت کے لیے یہ کیس ایک ٹیسٹ کیس ہے کہ وہ کس طرح سے اس سےنبردآزما ہوتے ہیں۔ عالمی سطح پر پاکستان کی عزت کو بحال کرنے کے لیے وزیراعظم عمران خان کو سیالکوٹ واقعے میں ملوث افراد کے خلاف فوری کارروائی کرنا ہوگی ۔ ایسے سیاسی رہنماؤں کو بھی لگام دینا ہوگی جو مذہب کی آڑ میں لوگوں کو نفرت سکھاتے ہیں اور تشدد پر اکساتے ہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر عمران خان حکومت اس ٹیسٹ کیس میں کامیاب نہ ہوئی تو مزید واقعات کو ہونے سےنہیں روکا جاسکتا۔ اس کیس کے اصل کرداروں تک پہنچنے کے لیے جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائے تو شفاف تحقیقات کو یقینی بنائے۔ اور اس واقعے پر پیچھے چھپے مقاصد کو سامنے لائے کہ کیوں بہیمانہ تشدد کرکے ایک غیرملکی کو قتل کیا گیا؟ کیوں اپنی عدالت لگائی گئی ؟ کیوں پولیس نے اپنا فرض منصبی احسن طریقے سے ادا نہیں کیا؟ اگر ان سوالات کے جواب نہ ملے تو پھر پاکستان کو مزید بدنامی سے کوئی طاقت نہیں بچا پائی گی کیونکہ ایسے واقعات پھر ہوتے رہیں گے۔

سری لنکن مینجر پرینتھا کمار کے قتل پر ٹوئٹر پر پیغام شیئر کرتے ہوئے امریکن ایمبیسی نے لکھا ہے کہ ” سیالکوٹ کی فیکٹری میں پیش آنے والے ناقابل بیان اور المناک واقعہ پر ہم انتہائی پریشان اور غمزدہ ہیں۔ ہم متعلقہ حکام سے تحقیقات کرنے اور گھناؤنے اور غیر قانونی تشدد کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی اپیل کرتے ہیں۔”

جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے سیالکوٹ واقعے کی مذمت کرتے ہوئے ذُومعنی پیغام ٹوئٹر پر شیئر کیا ہے کہ” سیالکوٹ میں پیش آنے والا واقعہ قابل مذمت اور شرمناک ہے ۔جامع تحقیقات ہونی چاہئے۔”

انہوں نے مزید لکھا ہے کہ "ریاست اگر توہین رسالت اور توہین ختم نبوتﷺ کے ملزمان کے خلاف کاروائی نہیں کرے گی تو اس قسم کے واقعات تو ہونگے۔”

نیوز 360 کی اطلاعات کے مطابق سیالکوٹ پولیس نے گرفتار 13 مرکزی ملزمان کا راہ داری ریمانڈ حاصل کرلیا ہے جبکہ انہیں گوجرانوالہ کی عدالت میں پیش کیا جائے گا۔

متعلقہ تحاریر