کیا وجیہہ سواتی بھی نور مقدم جیسے انجام سے دوچار ہوگی؟
پاکستانی نژاد امریکی خاتون کے اغوا کے الزام میں سابق شوہر گرفتار،پنڈی پولیس خاتون کی بازیابی میں ناکام، ایف بی آئی تحقیقات میں کود پڑی
کیا وجیہہ سواتی بھی نور مقدم جیسے انجام سے دوچار ہوگی؟پاکستانی نژاد امریکی خاتون وجیہہ فاروق سواتی کے اغوا کے الزام میں پولیس نے مقدمہ درج کرکے اس کے سابق شوہررضوان حبیب اللہ کو گرفتار کرلیا ہے۔
اسلام آباد کی مقامی عدالت نے ملزم کو 4روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔
یہ بھی پڑھیے
نور مقدم قتل کیس کو لٹکانے کے لیے ملزم ظاہر جعفر کے ہتھکنڈے کارگر ثابت
قتل سے قبل نور مقدم پر کیا بیتی، دل دہلا دینے والی سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے آگئی
وجیہہ فاروق سواتی کون ہیں؟
برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق 46 سالہ وجیہہ فاروق سواتی کا تعلق پاکستان کے شہر ایبٹ آباد سے ہے۔ جن کی پہلی شادی پاکستانی ماہر امراض قلب سے ہوئی تھی جنہیں 2014 میں پاکستان میں ٹارگٹ کلنگ میں قتل کردیا گیا تھا۔وجیہہ سواتی نے ہنگو سے تعلق رکھنے والے رضوان حبیب بنگش سے دوسری شادی کی تھی اور وہ گزشتہ کئی برس سے امریکا میں رہائش پذیر تھیں اوراپنے دوسرے شوہر کے ساتھ جائیداد کا تنازع حل کرنے کیلیے صرف چار روز کے لیے پاکستان آئی تھیں۔ خاتون کے تین بیٹے ہیں ۔بڑے بیٹے عبداللہ مہدی کی عمر 22 سال ہے جواس وقت امریکا میں ہے جبکہ دو بیٹے جن کی عمریں بالترتیب 15 اور 10 برس ہیں، عارضی طور پر اپنی خالہ کے گھر برطانیہ میں مقیم ہیں۔ وکیل شبنم اعوان نے بتایا کہ وجیہہ اپنے شوہر کا آلات جراحی کا کاروبار بھی سنبھالتی ہیں اور پراپرٹی سیکٹر میں انویسٹ کرتی رہتی تھیں۔ انہوں نے بزنس ایڈمسٹریشن میں ماسٹرز کیا تھا۔
وجیہہ سواتی کے اغوا کا مقدمہ کب اور کیسے درج کیا گیا؟
وجیہہ فاروق سواتی کے اغوا کا مقدمہ 2نومبر 2021 کوراولپنڈی کے تھانہ مورگاہ میں امریکا میں موجود ان کے بیٹے عبداللہ مہدی کی مدعیت میں ان کے وکلا نے حلف نامے کے ذریعے درج کروایا تھا۔ تھانہ مورگاہ میں درج کی گئی ایف آئی آر کے مطابق خاتون وجیہہ فاروق سواتی 16اکتوبر 2021 کو پاکستانی نژاد برطانوی بھانجے کے ہمراہ فلائٹ نمبر BA-0261کے ذریعے اسلام آباد پہنچی تھیں جس کے بعد ان کا برطانیہ میں موجود اپنی بہن اور 2 چھوٹے بچوں جبکہ امریکا میں موجود بڑے بیٹے سے رابطہ منقطع ہوگیا۔ ایف آئی آر کے مطابق خاتون اور ان کے بھانجے کو 22اکتوبر کو فلائٹ نمبر BA-0260 کے ذریعے واپس جانا تھا۔
ذرائع کے مطابق وجیہہ فاورق 22 اکتوبر کو اپنی بہن کے پاس برطانیہ واپس نہیں پہنچیں تو امریکا میں مقیم ان کے بڑے بیٹے نے وکیل شبنم نواز اعوان اور ایڈووکیٹ عدیل کے ذریعے 2 نومبر کو تھانہ مورگاہ میں مقدمہ درج کرواکر وجیہہ کےسا بق شوہر رضوان حبیب کو مرکزی ملزم نامزد کیا۔
ایف آئی آر کے مطابق وجیہہ سواتی اپنے سابقہ شوہر رضوان حبیب سے جائیداد کے تنازع سمیت کچھ معاملات طے کرنے کی غرض سے پاکستان آئی تھیں۔ رضوان حبیب بنگش وجیہہ سواتی اور ان کے بھانجے کو ڈی ایچ اے راولپنڈی کے ایک گھر لے کر گئے اور انہیں بند کر دیا۔ جب بھانجے کی آنکھ کھلی تو وجیہہ سواتی اور ان کے سابق شوہر وہاں موجود نہیں تھے۔جبکہ ان کے بھانجے کو بھی ملازموں نے ڈرا دھمکا کر گھر میں لاک کردیا لیکن وہ اپنی جان بچاتے ہوئے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔
سوتیلا باپ والدہ کو قتل کردے گا، وجیہہ کے بیٹے کو خدشہ
ایف آئی آر کے مطابق وجیہہ سواتی کے پاس ان کے بھانجے کا پاسپورٹ اور قومی شناختی کارڈ بھی تھا تاہم وہ ہنگامی سفری دستاویزات بنا کر 22 اکتوبر کو ہی پاکستان چھوڑ کر برطانیہ لوٹنے میں کامیاب ہوگئے۔ایف آئی آر کے مطابق خاتون کے بیٹے نے موقف اپنایا ہے کہ اسے پورا یقین ہے کہ سوتیلے بات نے اس کی والدہ کو ان کی جائیداد ہتھیانے اور جان سے مارنے کیلیے اغوا کیا ہے اور انہیں ذہنی، جسمانی اور جنسی تشدد کا نشانہ بناسکتا ہے کیونکہ ملزم نے خاتون کی بہن اور بیٹے(عبداللہ) کو دھکمی دی تھی کہ اگر وہ یہ معاملہ پولیس کے علم میں لائے تو وہ وجیہہ کو قتل کردے گا۔ ایف آئی آر کے مطابق اغوا کے روز سے خاتون کا موبائل فون اور واٹس ایپ نمبر بھی بن جارہے ہیں۔
وجیہہ سواتی کی رضوان سے ملاقات کب ہوئی، دونوں میں تنازع کیا تھا؟
بی بی سی کے مطابق وجیہہ سواتی کی وکیل شبنم اعوان کا کہنا ہے کہ وجیہہ کی رضوان سے پہلی ملاقات یو اے ای میں ایک بروکر کی حیثیت سے ہوئی۔وجیہہ کے خاندان کا کہنا ہے کہ ہمیں پہلے نہیں معلوم تھا کہ میاں بیوی میں کیا جھگڑا ہے کیونکہ انھوں نے یہ شادی اپنی مرضی سے کی تھی اور اس کے بعد سے خاندان والوں سے ان کا رابطہ کم رہا تھا۔وجیہہ کے بہنوئی مقصود احمد کے مطابق وجیہہ چند روز کے لیے سات سال بعد ہم سے ملنے انگلینڈ آئی تھیں اور پھر اس نے کچھ دن گزرنے کے بعد ہمیں بتایا تھا کہ رضوان نے ان کے پیسوں سے گھر لے کر انھیں کہا تھا کہ تین ماہ بعد تمھارے نام کر دوں گا لیکن پھر گھر نام نہیں کروایا۔وہ کہتے ہیں کہ ‘ہمیں وجیہہ نے بتایا کہ رضوان نے اس کے پیسوں سے خریدی گئی گاڑیاں بھی اپنے نام کروائیں تھیں اور مبینہ طور پر ستمبر 2020 میں ہنگو میں اسے کوئی دوا دے کر قتل کرنے کی کوشش بھی کی تھی۔
وجیہہ اور رضوان میں تعلق ہوئی یا نہیں؟فریقین کے متضاد دعوے
اہلِ خانہ کی جانب سے ملنے والی دستاویزات کے مطابق مغویہ کا اپنے دوسرے شوہر رضوان سے طلاق ہو چکی تھی تاہم رضوان کا دعویٰ ہے کہ وہ اب بھی ان کی بیوی ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ہماری غلطی ہے کہ ہم نے رضوان پر اعتبار کیا اور وجیہہ کو پاکستان بھجوایا۔
وجیہہ کے بہنوئی مقصود احمد کے مطابق پلان یہ تھا کہ وجیہہ کا بھائی اس کو ایئرپورٹ سے پک کرے گا لیکن وہ اس روز شہر میں نہیں تھا۔وہ کہتے ہیں کہ رضوان نے انھیں بتایا کہ میں اسے پک کروں گا۔ اور ایئرپورٹ پر جا کر وجیہہ سے کہا کہ تمھارے بھائی کے گھر بعد میں جائیں گے، رجسٹرار آفس والے آئے ہیں دستخط کروانے کے لیے پہلے ڈی ایچ اے میں گھر چلو لیکن جب وہ وہاں پہنچیں تو دستخط کروانے کے لیے کوئی نہیں پہنچا تھا۔
امریکی ادارے ایف بی آئی نے بھی وجیہہ سواتی کیس کی تحقیقات شروع کردی
امریکا کے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی نے بھی وجیہہ سواتی کے کیس کی تحقیقات شروع کردی ہیں۔ ایف بی آئی حکام امریکا سے ہی اس کیس کے حوالے سے تمام معلومات جمع کررہے ہیں اور خاتون کا سراغ لگانے کیلیے ہر ممکن اقدامات بھی کیے جارہے ہیں۔ذرائع کے مطابق ایف بی آئی حکام نے برطانیہ میں مقیم مغویہ کی بہن اور پاکستان سے ملزم کی قید سے مبینہ طور بچ نکلنے والے ان کے بھانجے سے بھی واقعے کی تفصیلات معلوم کی ہیں۔ذرائع کے مطابق راولپنڈی پولیس نے بھی خاتون کا سراغ لگانے کیلیے ایف بی آئی سے تکنیکی معاونت طلب کرلی ہے۔
ملزم رضوان کی گرفتاری کیسے عمل میں آئی؟
ذرائع کے مطابق امریکی سفارت خانے کے لیگل اتاشی سیکشن کے 2 سفارت کاروں نے پنڈی پولیس حکام سے ملاقاتیں کی ہیں۔پولیس نے امریکی حکام کو وجیہہ سواتی کے اغوا کیس کی تفتیش سے آگاہ کیا۔روالپنڈی پولیس نے امریکی خاتون کے اغوا کا مقدمہ درج ہونے کے باوجود ان کی بازیابی یا ملزم کی گرفتاری کیلیے ڈیڑھ ماہ تک کسی قسم کی کوشش نہیں کی تاہم جب خاتون کے رشتے دار معاملہ امریکی حکام کے علم میں لائے اور امریکی سفارتخانے کے 2 اہلکاروں نے پولیس افسران سے ملاقات کی تو پولیس حرکت میں آئی اور ملزم رضوان حبیب کو گرفتار کرلیا۔
پولیس نے ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر کا الزام مسترد کردیا
راولپنڈی پولیس کے ایس ایس پی انوسٹی گیشن غضنفر علی شاہ نے بی بی سی کو بتایا کہ پولیس کی جانب سے ایف آئی آر کاٹنے میں کوئی تاخیر نہیں کی گئی اور ایسا کہنا بالکل بے جا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ خاندان کے مطابق یہ واقعہ 16 اکتوبر کو ہوا ہے۔ ہمیں فوری طور پر کوئی اطلاع نہیں دی گئی تھی اور جیسے ہی اطلاع دی گئی ہم نے ایف آئی آر کاٹی۔انہوں نے بتایا کہ کیس میں دو پیچیدگیاں بھی ہیں، ایک تو یہ کہ واقعے کا کوئی چشم دید گواہ موجود نہیں ہے جبکہ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ پولیس کو واقعے کی اطلاع تاخیر سے دی گئی جس کے باعث پولیس بروقت شواہد اکٹھے نہیں کرسکی۔انہوں نے ملزم پر فوری ہاتھ نہ ڈالنے کے الزام کو بھی مستردکردیا ۔انہوں نے کہاکہ ملزم کو شروع دن سے تحقیقات کیلیے تھانے طلب کیا جارہا تھا اور ملزم کی گرفتار بھی تفتیش کے دوران ملنے والے شواہد کی بنیاد پر عمل میں آئی ہے
پولیس نے ملزم رضوان حبیب کو سول جج و جوڈیشل مجسٹریٹ ظہیر صفدر ملک کی عدالت میں پیش کرکے 4 روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کرلیا۔دوسری جانب لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بینچ نے وجیہہ فاروق سواتی کے اغواء سے متعلق دائر رٹ پٹیشن پر مغویہ کو بازیاب کرکے عدالت میں 30دسمبر کوپیش کرنےکا حکم دے دیا ۔