وفاق کا شہباز شریف کے خلاف عدالت جانے اور کورونا لاک ڈاؤن نہ لگانے فیصلہ
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں کہیں لاک ڈاؤن نہیں لگایا جائے تاہم حکومت کووڈ کی صورتحال کو مانیٹر ضرور کرے گی۔
وفاقی کابینہ نے نواز شریف کے معاملے پر قائد حزب اختلاف شہباز شریف کے خلاف عدالت جانے کا فیصلہ کیا جبکہ کابینہ نے اس بات کا بھی فیصلہ کیا ہے کہ کورونا کے پھیلاؤ کے دوران لاک ڈان نہیں لگایا جائے گا۔
وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد میڈیا کو پریس بریفنگ دیتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ وفاقی کابینہ نے آج اہم فیصلہ کرتے ہوئے شہباز شریف کے خلاف لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ یہ بالکل واضح ہے کہ نواز شریف کھلم کھلا فراڈ کرکے باہر فرار ہوئے ۔ وہ لندن میں بیٹھ کر ریاست پاکستان اور ہمارے قانون کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ یہ بات طے ہوئی تھی کہ شہباز شریف صاحب اتنی اماؤنٹ کا شورٹی بانڈ دیں گے یعنی جتنے کی سزا نواز شریف کو ہوئی تھی وہ سات ارب روپے تھی۔ اس پر شہباز شریف نے عدالت سے رجوع کیا اور ان کی شخصی بیان حلفی پر نواز شریف ملک سے باہر گئے۔ 17 ماہ ہوچکےہیں اب جب کہ ثابت ہوچکا ہے کہ نواز شریف کا ملک سے فرار ہونا ایک فراڈ تھا۔ انہوں ںے 17 ماہ سے کوئی علاج نہیں کرایا ہے ۔ نواز شریف کی صحت کا جو ڈرامہ رچایا گیا وہ جھوٹ پر مبنی تھا۔ عدالت نے اس وقت یہ حکم دیا تھا کہ نواز شریف کی میڈیکل رپورٹس کو پاکستانی ایمبیسی کے ساتھ شیئر کیا جائے گا۔ دو دفعہ ایمبیسی نے نواز شریف سے رابطہ کیا اور انہوں نے دونوں مرتبہ میڈیکل رپورٹس شیئر کرنے سے انکار کردیا۔ یہ ساری صورتحال اس بات کی غماذی کرتی ہے کہ شہباز شریف اس سارے فراڈ میں ملوث تھے۔
یہ بھی پڑھیے
نیویارک پراپرٹی کیس میں آصف زرداری کی ضمانت منظور
کیا انڈیپنڈنٹ اردو کے کارٹونسٹ اور کالم نگارنکالے گئے یا خود گئے ؟
وزیر اطلاعات کا کہنا تھا ہم کابینہ فیصلے کے مطابق عدالت سے رجوع کریں گے اور عدالت سے درخواست کریں گے یا تو شہباز شریف کو حکم دیں کہ وہ نواز شریف کو واپس ملک میں بلائیں ، یا پھر عدالت شہباز شریف کو ڈس کوالیفائی کرے کیونکہ انہوں نے جعلی بیان حلفی عدالت میں پیش کیا تھا۔ اور یہ آرٹیکل 63 کی خلاف ورزی ہے۔ اور جو سزا نواز شریف کو دی جانے تھی وہ سزا شہباز شریف کو دی جائے۔
دوسرا اہم فیصلہ جو وفاقی کابینہ کیا ہے اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے فواد چوہدری کا کہنا تھا اگرچہ پاکستان میں کووڈ کی شرح دوگنی ہو گئی ہے ، لیکن اس مرتبہ ہم نے یہ فیصلہ لیا ہے کہ ہم پاکستان کو بالکل بھی لاک ڈاؤن نہیں کریں گے۔ لہٰذا اسکولز کو بند کرنے کے حوالے سے جو قیاس آرائیاں وہ قیاس آرائیاں ہی رہیں گے کیونکہ لاک ڈاؤن ہماری معیشت کی متحمل نہیں ہوسکی۔ تاہم حکومت صورتحال کو مانیٹر ضرور کرے گی۔
مری کی صورتحال اور اموات
مری کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ایک لاکھ 64 ہزار کے قریب گاڑیاں مری میں داخل ہوئیں۔ اموات کے واقعات برف میں پھنسی ہوئی پانچ گاڑیوں میں ہوئے ہیں۔ ان واقعات تقریباً 22 لوگ اپنی جان سے گئے۔ یہ تمام واقعات ایک ہی سڑک کے اوپر ہوئے ۔ جوکہ گلڈنہ اور باڑیاں کے درمیان کا علاقہ ہے۔ ان واقعات کی وجوہات وہ درخت تھے جو بہت زیادہ برفباری کے دوران سڑک پر گر گئے تھے۔ اور سڑک بلاک ہو گئی۔ گاڑیوں کی ایک طویل قطار لگ گئی۔ جہاں پر یہ واقعہ پیش آیا وہاں پر ہیوی مشینری کا پہنچایا جانا بہت مشکل تھا۔ برف کے طوفان کی وجہ سے ہیلی کاپٹر بھی وہاں نہیں جاسکتے تھے۔ بہت سے لوگ گاڑیوں سے نکل کر پیدل چل پڑے ، جن لوگوں نے گاڑیوں میں ٹھہرنا مناسب سمجھا ، انہوں نے گاڑیوں میں ہیٹر چلالیے جس سے کاربن مونو آکسائیڈ گیس پیدا ہوئی جو ان کی اموات کا ذریعہ بنی۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں مقامی سیاحت کا جو انقلاب برپا ہوا ہے اس حوالے سے مقامی حکومت کو تیاری کرنے کی ضرورت ہے اور صوبائی حکومت کو لوگوں کو سہولیات فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ تین دنوں میں لاکھوں لوگ سیاست کے مری پہنچے تھے۔ ہماری حکومت نے 13نئی مقامات سیاحت کے لیے بنائے ہیں ۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا جو واقعہ ہوا اس کے دو پہلو ہیں ایک تو یہ کے کیا اس کو روکا جاسکتا تھا؟ اس کے لیے پنجاب حکومت نے ہائی پروفائل کمیٹی بنا دی ہے ۔ 24 گھنٹوں کےاندر لاکھوں لوگوں کو ریسکیو کیا گیا جو قابل تعریف عمل ہے۔