مقبوضہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ، بھارت کا درد سر
دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ گلوان میں شکست کے بعد انڈیا کے لیے اس خطے میں کافی بڑا سیٹ بیک آیا ہے جبکہ چین خطے میں سب سے بڑے پاور پلیئر کے طور پر سامنے آیا ہے۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے آج "یوم یکجہتی کشمیر” منایا جارہا ہے اور اس مرتبہ ایسے وقت میں یوم یکجہتی کشمیر منایا جارہا جب وزیراعظم پاکستان عمران خان میں چین میں موجود ہیں جہاں سرمائی اولمپکس کے سلسلے میں 20 سے زائد ممالک کے سربراہان موجود ہیں تاہم انڈیا کا کوئی نمائندہ موجود نہیں ہے۔
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا کہ مقبوضہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے، انہوں نے کہا تھا کہ مسئلہ کشمیر تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا ہے ، تاہم قائد اعظم محمد علی جناح کی بصیرت اور وقت نے ثابت کردیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کا تنازعہ بھارت کے لیے درد سر بنتا جارہا تھا۔
یہ بھی پڑھیے
بھارتی آرمی چیف کا طاقت کی بنیاد پر جنگ بندی کا دعویٰ مسترد
نوازشریف اور مریم نواز کوبلوچستان میں دہشتگرد حملوں پر سانپ سونگھ گیا
گذشتہ سال 15 جون کو وادی گلوان میں بھارتی سینا اور چینی فوج کے درمیان گھمسان کی جنگ ہوئی تھی جس میں انڈین آرمی کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ جس کے بعد چینی افواج نے وادی گلوان میں اپنی پوزیشن مزید مستحکم کرلی تھی۔
خطے کی صورتحال پر نظر رکھنے والے دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈیا اور چین کے درمیان تنازعہ اس سےقبل ہی شروع ہو گیا تھا جس اگست 2019 میں بھارتی حکومت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کردیا تھا اور خطے موجود دیگر علاقوں پر قبضے کا پروگرام بنایا تھا۔
ماہرین کا کہنا ہے چونکہ لداخ بھی کشمیر کا حصہ ہے اس لیے چین نے انڈیا کے اس فیصلے کو مسترد کردیا تھا۔ اور "چین نے کہا تھا کہ چونکہ یہ علاقہ عالمی سطح پر تسلیم شدہ متنازعہ علاقہ ہے اس لیے انڈیا اکیلا کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا ہے۔” جس کے بعد انڈیا اور چین کے درمیان تناؤ بڑھ گیا۔
کیا کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔؟ یا پاکستان اور انڈیا کے درمیان کوئی سرحدی تنازعہ ہے ۔ یا ایک انسانی المیہ ہے۔ کشمیر ایسا متنازعہ علاقہ ہے جس پر پاکستان اور انڈیا کے درمیان متعدد جنگی ہو چکی ہیں۔ کشمیر ایک عرصے سے اپنے حق خودارادیت کا مطالبہ کرتے آئے ہیں۔ 1989 میں اس جدوجہد میں ایک نیا موڑ اس وقت آیا جب وہاں کے لوگوں نے اس تحریک آزادی کو نئے طریقے سے منظم کرنے کا فیصلہ کیا۔ جس کے بعد دنیا بھر کی نظریں ایک مرتبہ کشمیر پر مرکوز ہوگئیں۔ اس موقع پر پاکستان نے 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر کے طور منانے کا فیصلہ کیا ، تب سے لے کر اب پاکستانی اور پاکستان میں موجود کشمیری بھائی 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر مناتے ہیں۔
انڈین آرچی چیف کی گیڈر بھبھکی کا موثر جواب دے ڈی جی آئی ایس پی آر نے انڈین آرمی چیف کی زبان بند کروا دی ہے ۔ جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہم نے ایل او سی پر بہتر پوزیشن ہونے کے باوجود ایل او سی پر فائر بندی کو قبول کیا۔
بھارتی آرمی چیف جنرل ایم ایم نروانے نے جمعرات کو ایک سیمینار سے خطاب میں دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان کے ساتھ لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی بدستور برقرار ہے کیونکہ ہندوستان نے طاقت کے زور پربات چیت کی تھی۔
Indian COAS claiming LOC ceasefire holding because they negotiated from position of strength,is clearly misleading. It was agreed only due to Pak’s concerns 4 safety of ppl of Kashmir living on both sides of LOC. No side should misconstrue it as their strength or other’s weakness
— DG ISPR (@OfficialDGISPR) February 4, 2022
ڈی جی آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ بھارتی آرمی چیف کا طاقت کی بنیاد پر جنگ بندی کا دعویٰ بے بنیاد ہے۔ترجمان پاک فوج کا کہنا ہے کہ کنٹرول لائن کے دونوں جانب کشمیریوں کی حفاظت کے لیے سیز فائر پر اتفاق کیا گیا۔انہوں نے بھارتی آرمی چیف کے بیان پر مزید کہا کہ کوئی بھی فریق اسے اپنی طاقت یا دوسرے کی کمزوری نہ سمجھے۔
دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ گلوان میں شکست کے بعد انڈیا کے لیے اس خطے میں کافی بڑا سیٹ بیک آیا ہے جبکہ چین خطے میں سب سے بڑے پاور پلیئر کے طور پر سامنے آیا ہے۔ دوسری بات یہ کہ خود انڈین پارلیمنٹ کے اندر مودی کی پالیسیز کے خلاف آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئی ہے۔ تین روز قبل کانگریس کے مرکزی لیڈر راہول گاندھی نے اپنی پارلیمنٹ میں بیان دیتے ہوئے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ مودی کی پالیسیز کی وجہ سے پاکستان اور چین ایک دوسرے کے قریب آگئے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے چونکہ کشمیر 1947 سے عالمی سطح پر تسلیم شدہ متنازعہ علاقہ ہے جہاں بھارتی فوج نے غیرقانونی طریقے سے قبضہ جما رکھا ہے ، اب وقت آگیا ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو ان حق خودارادیت دیا جائے تاکہ خطے میں امن قائم ہو اور ترقی کی نئی راہیں کھل سکیں۔ انڈین گورنمنٹ کو وقت کی تبدیلی ہوتی ہوئی صورتحال کو دیکھتے ہوئے اپنے رویے میں لکچ لانا ہوگی تاکہ 74 سال سے جاری تنازعہ اختتام پذیر ہوسکے۔