محسن بیگ صحافی ہیں یا نہیں ، صحافی خود الجھ پڑے

فیکٹ فوکس کے رپورٹر احمد نورانی کا کہنا ہے محسن بیگ آن لائن نیوز ایجنسی سمیت آئی ایس آئی کے کئی پروجیکٹوں کی سربراہی کرچکے ہیں۔ اسے صحافی کیسے کہا جا سکتا ہے؟۔"

بدھ کے روز وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے وفاقی وزیر مراد سعید کی درخواست پر فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم سیل نے محسن جمیل بیگ کو گرفتار کرلیا ، جس کے بعد صحافتی حلقوں میں ایک نیا پینڈورا باکس کھل گیا ہے کہ محسن جمیل بیگ صحافی ہے یا آئی ایس آئی کا ٹاؤٹ ہے۔

پاکستان کے معروف اینکر پرسن کامران یوسفزئی نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پیغام شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ "محسن بیگ ایک نیوز ایجنسی کے مالک ہیں اور کوئی صحافی نہیں جس کا فیلڈ کا تجربہ ہو۔”

یہ بھی پڑھیے

سیشن عدالت نے صحافی محسن بیگ کے گھر پر چھاپہ غیرقانونی قرار دے دیا

اٹارنی جنرل کا نواز شریف کے میڈیکل ریکارڈ کے لیے ذاتی معالج ڈیوڈ لارس کو خط

کامران یوسفزئی نے مزید لکھا ہے کہ "صحافیوں کی اکثریت ایسی ہے جو تین وقت کی روٹی کے لیے وقت پر تنخواہ آنے کا انتظار کرتی ہے اور شاید ایسے صحافیوں کی اتنی سکت بھی نہیں کہ وہ ایک کھلونا پستول بھی خرید سکیں!۔”

جبکہ سینئر صحافی مرتضیٰ سولنگی نے کامران یوسفزئی سے اختلاف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ "کیا مذاق بنا رکھا ہے! ایک میڈیا پرسن محسن بیگ کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں لے جایا جاتا ہے اور تین دن کے ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔”

انہوں نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ "جب وہ (حکومت) حقیقی دہشت گردوں کے ساتھ امن معاہدے پر بات چیت کر رہی ہیں۔”

حکومتی اشارے پر ایف آئی اے کی کارروائی پر تنقید کرتے ہوئے معروف اینکر پرسن عاصمہ شیرازی نے ٹوئٹر پر جاتے ہوئے پیغام شیئر کیا ہے کہ "ایف آئی اے نے صحافی اور پی ٹی آئی حکومت کے ناقد محسن بیگ کو آج صبح ان کے گھر سے گرفتار کر لیا۔ حکومت کا تنقیدی آوازوں پر حملہ ، انتہائی قابل مذمت ہے۔”

فیکٹ فوکس کے رپورٹر احمد نورانی نے محسن جمیل بیگ کی گرفتاری پر ردعمل دیتے ہوئے لکھا ہے کہ "قابل پنشن نوکری کا حامل سرکاری ملازم صحافی کیسے ہوسکتا ہے؟ محسن بیگ آئی ایس آئی کا ایک باقاعدہ افسر ہے جو پچھلے تیس سالوں سے ادارے کیلیے خدمات انجام دے رہا ہے۔”

احمد نورانی نے مزید لکھا ہے کہ ” اس نے آن لائن نیوز ایجنسی سمیت آئی ایس آئی کے کئی منصوبوں کی سربراہی کی ہے۔ اسے صحافی کیسے کہا جا سکتا ہے؟۔”

جیو نیوز کے سابق اینکر پرسن اور سینئر صحافی حامد میر نے محسن بیگ کی حوالات کے اندر بند تصویر ٹوئٹر پر شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ "صحافت کوئی جرم نہیں ہے!!! صحافی محسن بیگ سلاخوں کے پیچھے۔”

صحافی فخر درانی نے لکھا ہے کہ ” یہی محسن بیگ کل تک عمران خان کے محسنوں میں سے تھے۔ اور آج تنقید کرنے پر خان نے اسے گرفتار کرلیا۔چیف ایڈیٹر آن لائن نیوز ایجنسی کی گرفتاری سے ایک بات واضح ہوگئی ہے کہ عمران خان کے اندر تنقید برداشت کرنے کا مادہ ختم ہوچکا۔ اور فرسٹریشن کا یہ لیول کسی بھی حاکم کے لیے درست نہیں۔”

گذشتہ روز اسلام آباد کی سیشن عدالت نے سینئر صحافی محسن بیگ کی نظر بندی کے خلاف دائر درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے ایف آئی اے کے چھاپے کو غیرقانونی قرار دے دیا۔

ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے 5 صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ جاری کیا ، جس میں کہا گیا ہے کہ ایف آئی اے نے ایف آئی آر 9 بجے درج کی گئی۔ جبکہ ان کے پاس محسن بیگ کے گھر پر چھاپہ مارنے کا اختیار نہیں تھا۔

میڈیا اطلاعات کے مطابق گذشتہ رات ایف آئی اے حکام نے آن لائن نیوز ایجنسی کے مالک محسن بیگ کے بیٹے کو بھی کارسرکار میں مداخلت اور ایف آئی اے اہلکاروں پر فائرنگ کے الزام میں گرفتار کر لیا۔

محسن بیگ کی گرفتاری پر ردعمل دیتے ہوئے غیرجانبدار حلقوں کا کہنا ہے کہ صحافی پہلے خود طے کرلیں کہ محسن بیگ صحافی ہے یا نہیں ۔ کوئی ایک فیصلہ کر لیا جائے تاکہ اس کے بعد ایک متفقہ لائحہ عمل اختیار کیا جاسکے۔

متعلقہ تحاریر