سیشن جج کے خلاف شکایت: قانونی ٹیم کا وزیراعظم کو بروقت مشورہ
نیوز 360 کے ذرائع مطابق عمران خان کو وزیر قانونی فروغ نسیم ، بابر اعوان اور اٹارنی جنرل خالد جاوید نے مشورہ دیا ہے کہ جج ظفر اقبال کے خلاف ریفرنس فائل کرنے سے گریز کیا جائے۔
صحافی محسن بیگ کے گھر ایف آئی اے کے چھاپے کو غیرقانونی قرار دینے والے سیشن جج ظفر اقبال کے خلاف حکومت نے ریفرنس دائر نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
جمعہ کو میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا تھا کہ وزیراعظم عمران خان نے انہیں سیشن جج کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی کوئی ہدایت نہیں کی۔
یہ بھی پڑھیے
فیصل واؤڈا نے تاحیات نااہلی کے خلاف سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا دیا
ملک سیکیورٹی کے نام پر بند رہے گا تو تجارت کیسے ہوگی؟
انہوں نے کہا کہ عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنا استغاثہ کا حق ہے۔
نیوز 360 کے ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران خان سے گذشتہ روز اٹارنی جنرل آف پاکستان خالد جاوید خان ، وفاقی وزیر قانونی فروغ نسیم اور وزیراعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان نے ملاقات کی ہے۔
ذرائع کے مطابق تینوں شخصیات نے وزیراعظم کو مشورہ دیا ہے کہ وہ بالکل بھی سیشن جج معاملے میں ہاتھ نہ ڈالیں ، محسن بیگ تو پہلے ہی ایف آئی اے کی حراست میں ہے ، اور اس کے خلاف دہشتگردی دفعات کے تحت مقدمات قائم کیے جاچکے ہیں۔
ذرائع کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ ہم اس قانون کو چیلنج کرسکتے ہیں مگر جج کے خلاف عدالت میں نہیں جاسکتے ۔ کیونکہ تمام بار ایسوسی ایشنز میدان میں آجائیں گیں اور حکومت کے لیے مسئلہ پیدا ہو جائے گا۔ اس لیے اس مسئلے کو وقتی طور پر نہ چھیڑا جائے۔
ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ وزیراعظم کے معاون خصوصی شہباز گل اور فواد چوہدری نے انہیں سیشن جج کے خلاف ریفرنس فائل کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ کیونکہ فواد چوہدری بنیادی طور پر وکیل بھی ہیں ، ان کے مشورہ کو انڈوز کیا تھا شہباز گل نے۔
واضح رہے کہ جمعرات کے روز ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی تھی ، ملاقات میں جس سیشن جج نے صحافی محسن بیگ کے گھر چھاپے کو غیر قانونی قرار دیا ہے اس کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا کہ اس نے اپنی پاور سے تجاوز کیا تھا۔
خیال رہے کہ 16 فروری کو سیشن کورٹ کے جج ظفر اقبال نے صحافی محسن بیگ کے گھر ایف آئی اے کے چھاپے اور گرفتاری کو غیرقانونی قرار دیا تھا۔
پانچ صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں عدالت نے قرار دیا کہ ایف آئی اے حکام نے بغیر سرچ وارنٹ کے چھاپہ مارا۔ عدالت نے حکم دیا کہ مارگلہ کے ایس ایچ او نے جعلی کارکردگی دکھانے کے لیے مقدمہ درج کیا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ جن لوگوں نے چھاپہ مارا ان کے پاس اس حوالے سے کوئی اختیار نہیں تھا۔ عدالت نے آئی جی اسلام آباد کو ایس ایچ او کے خلاف کارروائی شروع کرنے کا حکم بھی دیا تھا۔