لاہور ہائیکورٹ نے پیکا ایکٹ کے سیکشن 20 کو آئینی قرار دے دیا

پیکا ایکٹ کا سیکشن 20 آئین کے آرٹیکل 25 اور 4 کی خلاف ورزی نہیں کرتا،آئین کا آرٹیکل 19 جہاں آزادی اظہار کا حق دیتا ہے وہیں کچھ پابندیاں بھی عائد کرتا ہے،میشا شفیع کی درخواست مسترد کرنیکا تفصیلی فیصلہ جاری

لاہور ہائیکورٹ نے پیکا ایکٹ کے سیکشن 20 کو آئینی قرار دے دیا۔ عدالت نے اپنے فیصلہ کہا ہے کہ پیکا ایکٹ کا سیکشن 20 آئین کے آرٹیکل 25 اور 4 کی خلاف ورزی نہیں کرتا، آرٹیکل 25 کے تحت تمام شہری قانون کے سامنے برابر ہیں۔ آئین کا آرٹیکل 19 جہاں آزادی اظہار کا حق دیتا ہے وہی کچھ پابندیاں بھی عائد کرتا ہے۔

جسٹس طارق سلیم شیخ نے میشا شفیع و دیگر کی مقدمہ خارج کرنے کی درخواست  مسترد کرنے کا 30صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری  کردیا۔

یہ بھی پڑھیے

سوشل میڈیا مہم کیس، میشاء شفیع کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست مسترد

علی ظفر کے وکلا نے ریما عمر کو قانون کا سبق یاد دلا دیا

عدالت نے اپنے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ عدالت کی  رائے میں پیکا ایکٹ کا سیکشن 20 غیر آئینی نہیں ہے ،یہ آئین کے آرٹیکل 14 کے عین مطابق ہے،جو عزت اور وقار کو فروغ دیتا ہے ،میشا شفیع سمیت دیگر درخواست گزاروں کے پاس بے گناہی ثابت کرنے کی لیے فورم موجود ہے ،آرٹیکل 4 ہر شہری کو حق دیتا ہے کہ وہ قانون کے تحت دیے گیے تحفظ حاصل کرے ۔

عدالت نے فیصلے میں قرار دیا ہے  کہ  آرٹیکل 25 کے تحت تمام شہری قانون کے سامنے برابر ہیں ،پیکا ایکٹ کا سیکشن 20 آئین کے آرٹیکل   25 اور 4 کی خلاف ورزی نہیں کرتا،ہمارے ملک میں لوگ اپنے تنازعات کو حل کرنے کےلیے فوجداری اور  دیوانی قانون کا سہارا لیتے ہیں ،ہمیشہ یہ سوال رہتا ہے کہ کیا فوجداری اور سول کارروائی ساتھ ساتھ چل سکتی ہے ۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ  سول معاملات میں شواہد پیش کرنا فوجداری کیسز سے بالکل مختلف ہے ،موجودہ کیس اگر ہتک عزت دعوے کے فیصلہ درخواست گزار کے خلاف آتا ہے تو اسکا اثر کریمنل ٹرائل پرنہیں پڑے گا ،اگر ہتک عزت کا دعویٰ مسترد بھی  ہوتا ہے تو درخواست گزار ٹرائل سے بری نہیں ہوسکتا ،یہ بات تسلیم شدہ ہے کسی شحص کو کسی دوسرے کی عزت اچھالنے اور شہرت کو نقصان پہنچانے کا لائسنس نہیں دیا جاسکتا ۔

عدالت نے علی ظفر اور میشا شفیع  کے کیس کے حوالے سے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ ایف آئی اے نے درخواست گزار  کا ٹوئیٹر اور فیس بک اکاؤنٹ کا جائزہ لیا ،ایف آئی اے نے بیانات ریکارڈ کیے اور چالان پیش کیا ،یہ نہیں کہا جاسکتا کہ درخواست گزار کے گنہگار ہونے کے شواہد نہیں ہیں،درخواست گزار کے مطابق علی ظفر ہتک عزت کے دعوے میں گواہوں کو دباؤ میں لانے کے لیے مقدمہ درج کرایا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں مزید لکھا کہ اس سوال کے جواب کےلیے مکمل انکوئری درکار ہے کہ آئینی عدالت کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا ،درخواست گزار ٹرائل کورٹ کے روبرو معاملے کو اٹھا سکتے ہیں ،عدالت میشا شفیع ودیگر ملزمان کی درخواست  جرمانے کے ساتھ مسترد کرتی ہے ۔

عدالت نے قرار دیا ہے کہ  درخواست کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے عدالت کے سامنے چھ اہم نکات ہیں ،کیا پیکا ایکٹ کا سیکشن 20 آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت آزادی اظہار کے متضاد ہے ؟ کیا یہ درخواست قابل سماعت ہے ؟کیا پیکا ایکٹ کا سیکشن 20 امیتازی ہے ؟کیا ایک فریق ایسے معاملے پر مقدمہ درج کراسکتا ہے جو پہلے ہی اسی نوعیت کے معاملے پر ہتک عزت کے دعوے کی کارروائی کر رہا ہے ؟کیا ایف آئی آر غلط ہے اور کوئی مجرمانہ مواد نہیں ہے؟

عدالتی فیصلے کے مطابق  آئین کے آرٹیکل 199کے ہائیکورٹ کا دائرہ اختیار   غیر معمولی ہے ، ہائیکورٹ اسی صورت میں اختیار استعمال کرتی ہے جب متاثرہ کے پاس متبادل فورم موجود نہ ہو،265 کے اور 249 سی آر پی سی کے تحت سیشن کورٹ کو اختیار ہے اگر وہ سمجھے کہ مذکوہ کیس میں  سزا ممکن نہیں تو ملزم کو بری کردے ،ہائیکورٹ کو معمول کے ٹرائل میں مداخلت کرکے فوجداری کارروائی ختم  نہیں کرنی چاہیے ۔

لاہور ہائیکورٹ نے قرار دیا ہے کہ  یہ بات بھی حقیقت ہے کہ ہر کیس کے حقائق الگ ہوتے ہیں ۔موجودہ کیس میں ایک فریق نے نشاندہی کی کہ ملزمان نے  جوڈیشل مجسٹریٹ کے روبرو سی آر پی سی 249کے تحت درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔

لاہور ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ  آزادی اظہار کا تصور یونان کے قدیم زمانے کا ہے جہاں اسے ایک جمہوری آئیڈیل کے طور پر دیکھا جاتا ہے ۔آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت ہر شہری کو آزادی اظہار کا حق حاصل ہے ،امریکا میں آزادی اظہار رائے کو پہلی اور چودہویں ترمیم کے ذریعے تحفظ دیا گیا ،آئین کا آرٹیکل 19 جہاں آزادی اظہار کا حق دیتا ہے وہی کچھ پابندیاں بھی عائد کرتا ہے،آرٹیکل 19 اسلام کی شان ،پاکستان کی سلامتی اور دوسرے ممالک کے تعلقات سے اخلاقیات،عوامی حکم  اور توہین عدالت سے  متعلق پابندی عائد کرتا ہے۔

لاہور ہائیکورٹ نے قرار دیا ہے کہ  پیکا ایکٹ پاکستان میں سائبر کرائم کو چیک کرتا ہے،ایکٹ تفتیش کا طریقہ کار ،پراسیکیویشن اور ٹرائل کے حوالے سے بھی بات کرتا ہے۔سیکشن 20 ایسے شحص کے خلاف کارروائی کا اختیار دیتا ہے جو کسی فرد کی عزت مجروح کرے۔عدالت نے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ میرا شفیع عرف میشا شفییع و دیگر ملزمان کی درخواست جرمانے کے ساتھ مسترد کی جاتی ہے۔

متعلقہ تحاریر