پاکستان میں گورنر راج اور تحریک عدم اعتماد کی تاریخ

قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کی جماعتوں نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی ہے جبکہ وفاقی وزیر داخلہ نے سندھ میں گورنر راج کا مشورہ دیا ہے۔

کیا پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) تحریک عدم اعتماد کے ذریعے موجودہ وزیر اعظم عمران خان کو اقتدار سے الگ کرپائیں گے یا یا ماضی کی اپوزیشن کی طرح وہ ناکام ہو جائیں گے ، کیونکہ پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی وزیراعظم کے خلاف آج تک تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہوئی۔

پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی ہو۔

یہ بھی پڑھیے

صحافی کا کسی پارٹی کا حصہ بننا بدقسمتی ہے، اینکر پرسن عاصمہ شیزاری

سپریم کورٹ نے سندھ ہاؤس اسلام آباد پر حملے کا نوٹس لے لیا

آئی آئی چندریگر کے خلاف تحریک عدم اعتماد

اسماعیل ابراہیم (آئی آئی)  چندریگر کے خلاف 1957 میں اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تھی لیکن وہ فیل ہو گئی تھی ، یہ پاکستانی سیاسی تاریخی کی پہلی تحریک عدم اعتماد تھی۔ تاہم آئی آئی چندریگر سیاسی دباؤ کی وجہ سے خود مستعفی ہو کر چلے گئے تھے۔ اور ان کی جگہ فیروز خان نون کو وزیراعظم بنایا گیا تھا۔

بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد

حزب اختلاف کی جانب سے 1989 کو وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی جو ناکامی سے دوچار ہوئی تھی ، اپوزیشن کو 12 ووٹوں کی کمی سے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تھا۔

تحریک عدم اعتماد کا طریقہ کار

237 رکنی ایوان میں سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کے لیے 119 ووٹ درکار تھے۔ تاہم تحریک کے حق میں 107 ووٹ ڈالے گئے اور بے نظیر بھٹو کو 125 ووٹ ملے جب کہ 5 ارکان ایوان سے غیر حاضر رہے۔

شوکت عزیز کے خلاف تحریک عدم اعتماد

دوسری بار اگست 2006 میں سابق وزیراعظم شوکت عزیز کے خلاف اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد جمع کرائی گئی اور اس بار بھی وہ ناکام رہے۔

342 رکنی قومی اسمبلی میں سابق وزیراعظم شوکت عزیز کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کے لیے 172 ووٹ درکار تھے تاہم اپوزیشن صرف 136 ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکی جب کہ شوکت عزیز کے حق میں 201 ووٹ آئے تھے۔

عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد

گذشتہ دنوں پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں چوتھی بار اپوزیشن نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی ہے جس میں متحدہ اپوزیشن نے دعویٰ کیا ہے کہ اس تحریک کی کامیابی کے لیے 172 سے زائد ارکان کی حمایت حاصل ہے۔

متحدہ اپوزیشن کو وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کے لیے قومی اسمبلی کے 342 میں سے 172 ارکان کی حمایت درکار ہے۔ اس طرح اپوزیشن کو مزید 10 ارکان کی ضرورت ہوگی۔

آئین کے آرٹیکل 54 کے مطابق اپوزیشن کی منتقلی پر اسپیکر قومی اسمبلی کا اجلاس 14 دن میں بلانے کا پابند ہے۔ تاہم اسپیکر کسی بھی وقت یہ اجلاس طلب کر سکتے ہیں۔

اگر اپوزیشن نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جیت لی تو یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہوگا کہ عمران خان ، وزیراعظم ہاؤس سے سبکدوش ہونے والے پہلے وزیراعظم ہوں گے۔

خیال رہے کہ اپوزیشن نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں تحریک عدم اعتماد جمع کرائی ہے جس پر مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، اے این پی اور جے یو آئی (ف) کے 86 ارکان کے دستخط ہیں۔

دوسری جانب وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کے سندھ میں گورنر راج کے بیان نے ایک بار پھر نئی بحث چھیڑ رکھی ہے۔

ملک کے سیاسی تجزیہ کار جو پہلے ہی تحریک عدم اعتماد اور سندھ ہاؤس کے گرد گھوم رہے تھے اب گورنر راج کی بحث میں الجھ گئے ہیں۔ ایک طرف کچھ وفاقی وزراء سندھ میں گورنر راج لگانے کا مطالبہ کر رہے ہیں تو دوسری جانب سندھ حکومت ایسے بیانات پر ردعمل دے رہی ہے۔

اس سے قبل پی ٹی آئی سندھ کی رہنما فردوس شمیم نقوی ​​نے بھی صوبے میں گورنر راج کا مطالبہ کیا تھا۔

گورنر راج کے حق میں بات کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ سندھ میں آرٹیکل 235 کے تحت ایمرجنسی کا اعلان کیا جائے، کیونکہ صوبے کے حالات تیزی سے خراب ہورہے ہیں۔

پی ٹی آئی کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ سندھ میں گورنر راج لگانے میں کوئی حرج نہیں۔ اس پر سندھ حکومت کا موقف ہے کہ کئی بار گورنر راج کا شوشہ چھوڑا گیا ہے۔ ایمرجنسی کا ذکر آرٹیکل 235 میں نہیں بلکہ آرٹیکل 234 میں ہے۔

گورنر راج میں کیا ہوگا؟

گورنر شپ کے دوران صوبے کے تمام اختیارات گورنر کے پاس آجاتے ہیں اور چونکہ گورنر وفاق کا نمائندہ ہوتا ہے اس لیے اس کے فیصلے وفاق کی مشاورت سے ہوتے ہیں۔

یہاں تک کہ گورنر کے پاس صوبائی اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار ہے۔ اس کے علاوہ گورنر کو صوبے میں بگڑتی ہوئی صورتحال پر قابو پانے کے لیے فوج کو بلانے کا اختیار حاصل ہوجاتا ہے۔ عام حالات میں یہ اختیار صوبے کے وزیر اعلیٰ اور صدر کے پاس ہوتا ہے۔

پاکستان کے آئین کے تحت کسی بھی صوبائی حکومت کی ناکامی کی صورت میں وفاقی حکومت قانون کے ذریعے کم از کم چھ ماہ کے لیے صوبے میں گورنر راج نافذ کیا جا سکتا ہے۔ گورنر راج کے بعد اراکین، وزرا، مشیران ، اسپیکر حتیٰ کہ صوبائی حکومت کے اعلیٰ ترین عہدے دار یعنی وزیر اعلیٰ کے پاس فیصلہ سازی کا کوئی اختیار نہیں رہتا ہے۔ ان کا کام صرف صوبے کی سیکیورٹی کا خیال رکھنا، وفاق اور دیگر صوبوں کے ساتھ صوبے کے روابط کو مضبوط رکھنا ہے، جب کہ صوبے کے گورنر کا تقرر وزیراعظم کرتا ہے۔

گورنر راج کی بازگشت پاکستان میں ماضی میں کئی بار سنی گئی ہے۔ ایسے مواقع بھی آئے ہیں جب صوبائی گورنروں کو اضافی اور مکمل اختیارات دیئے گئے ہیں اور اگر صوبائی اسمبلی تحلیل ہو گئی ہے تو انتظامی اختیارات براہ راست گورنر کے کنٹرول میں آ گئے ہیں۔ 1958 سے 1972 تک اور 1977 سے 1985 تک صوبوں میں مارشل لاء نافذ رہا۔ گورنر راج کے دوران 1999 سے 2002 تک صوبے گورنر راج کے زیراقتدار رہے۔

سندھ میں گورنر راج کب آیا؟

سندھ میں دو بار براہ راست گورنر راج نافذ کیا گیا ، میاں امین الدین 1951 سے 1953 تک گورنر رہے اور رحیم الدین خان کو 1988 میں گورنر شپ دی گئی۔

ڈاکٹر عشرت العباد پاکستان کی تاریخ میں سب سے طویل عرصے تک رہنے والے گورنر ہیں جو مسلسل 14 سال تک گورنر رہے۔ انہوں نے 3 حکومتیں دیکھی ہیں جب کہ ایک گورنر کی مدت عام طور پر 5 سال ہوتی ہے۔

بلوچستان میں گورنر راج

2013 میں کوئٹہ میں ہزارہ برادری کے افراد کی ٹارگٹ کلنگ کے موقع پر اس وقت کے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کو بلوچستان میں گورنر راج کے نفاذ کا اعلان کرنا پڑا۔ راجہ پرویز اشرف نے آئین کے آرٹیکل 234 کے تحت کوئٹہ میں گورنر راج نافذ کرنے کا اعلان کیا تھا۔

آئین کے آرٹیکل 234 کے تحت متعلقہ صوبے کے گورنر کی رپورٹ پر اگر صدر کو یقین ہو کہ صوبے کی حکومت آئین اور قانون کے مطابق معاملات نہیں چلا سکتی تو وہ گورنر راج کے نفاذ کا اعلان کر سکتے ہیں۔

صدر کے احکامات

گورنر راج کے نفاذ کی ایک اور شکل یہ ہے کہ اگر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے اپنے الگ الگ اجلاسوں میں کسی صوبے میں گورنر راج کے نفاذ کے لیے قراردادیں منظور کیں تو صدر ان پر عمل درآمد کرنے کے پابند ہوں گے ، اور گورنر راج کے نفاذ کے لیے صدارتی حکم نامہ جاری کریں گے۔

اٹھارویں ترمیم

18ویں ترمیم سے پہلے کسی صوبے کو پارلیمنٹ کے زیر انتظام چلانے کے لیے ضروری تھا کہ ایسی قرارداد قومی اسمبلی اور سینیٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کی جائے لیکن اب ہمیں دونوں ایوانوں میں الگ الگ قراردادیں پاس کرنا ہوں گی۔

متعلقہ تحاریر