تحریک عدم اعتماد کا معاملہ ، تمام راستے عدالتوں کو جارہے ہیں

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے معاملے تمام فریقین نے عدالتوں سے رجوع کرلیا ہے ، اس لیے اب بہتر یہی ہے کہ تمام فریقین صبر کا دامن تھام کر بیٹھیں۔

وزیراعظم عمران خان کے خلاف ، حزب اختلاف کی جانب سے جمع کرائی گئی تحریک عدم اعتماد کا معاملہ دلچسپ صورتحال اختیار کرتا جارہا ہے ۔ اب تمام سیاسی جماعتوں اور دیگر پلیٹ فارمز نے تحریک عدم اعتماد کی جنگ عدالتوں میں لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی پٹیشن کے بعد ، وفاقی حکومت نے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانے کا فیصلہ کیا جبکہ سیاسی جماعتوں نے تحریک عدم اعتماد پر رولز کے مطابق قومی اسمبلی کا اجلاس نہ بلانے پر اسپیکر کے خلاف عدالت جانے کا فیصلہ کیا ہے۔

وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر کا کہنا ہے کہ آرٹیکل 63A کی تشریح کے لیے سپریم کورٹ میں ریفرنس فائل کرنے کے لیے تیار ہے جو آج پیش کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیے

بلاول بھٹو کی دھمکی پر شیخ رشید کی جوابی دھمکی

وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا کی سیکورٹی پر بیک وقت 343 اہلکار تعینات

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پیغام جاری کرتے ہوئے اسد عمر لکھا ہے کہ ” آرٹیکل 63A کی تشریح کے لئے سپریم کورٹ ریفیرینس تیار ہو گیا. کل کورٹ میں پیش کیا جائے گا. انشاءاللہ اس کیس سے پاکستان کی سیاست میں ضمیر بیچ کر لوٹا بننے کا گھناؤنا کاروبار ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گا، اور حرام کے پیسے کی سیاست میں اثرو رسوخ میں کمی آئے گی۔”

دوسری جانب چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ آئین کے تحت تحریک عدم اعتماد پر 14 روز میں قومی اسمبلی کا اجلاس بلانا ضروری ہے،اسپیکر اسد قیصر نے 25 مارچ کو اجلاس بلانے کا اعلان کیا ہے جو آئین شکنی ہے جس کے خلاف پیپلز پارٹی عدالت سے رجوع کرے گی۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان کا کہنا ہے کہ "اسپیکر کہتے ہیں کہ 25 تاریخ کو اجلاس بلاؤں گا، یہ اپنا اقتدار بچانے کیلئے آئینی بحران پیدا کررہے ہیں، 14 دن کل (پیر) پورے ہورہے ہیں، اگر اجلاس نہ بلایا اور تحریک ٹیبل نہ کرائی، تو اسپیکر آئین شکنی کے مرتکب ہوں گے”

 

سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ عدالت عظمیٰ کو تحریک عدم اعتماد اور سیاسی عمل میں کوئی دلچسپی نہیں ہے تاہم آئین اور قانون کی عملداری پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔

چیف جسٹس نے سنیچر کو یہ ریمارکس پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں تحریک عدم اعتماد کے دوران تصادم کے ممکنہ خطرے سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران دیے۔ یہ درحواست سپریم کورٹ بار ایسوی ایشن کے صدر احسن بھون کی طرف سے دائر کی گئی تھی۔

پارلیمینٹ ممبران اور سیاسی کارکنوں کے درمیان کانسٹیٹیوشن ایونیو پر ممکنہ تصادم کے خدشات کو دور کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) نے ریڈ زون میں کسی بھی سیاسی اجتماع کے خلاف فیصلہ سنایا ہے جہاں پارلیمنٹ ہاؤس، سپریم کورٹ، ایوان صدر اور وزیراعظم آفس سمیت اہم سرکاری اداروں کے آفسز موجود ہیں۔

رپورٹ کے مطابق اس کے علاوہ سندھ ہاؤس، پنجاب ہاؤس، بلوچستان ہاؤس، خیبرپختونخوا ہاؤس، الیکشن کمیشن آف پاکستان، سپریم کورٹ ججز کی رہائش گاہیں اور دیگر اہم تنصیبات بھی ریڈ زون میں واقع ہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے معاملے تمام فریقین نے عدالتوں سے رجوع کرلیا ہے ، اس لیے اب بہتر یہی ہے کہ تمام فریقین صبر کا دامن تھام کر بیٹھیں اور سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کریں ، دوسری صورت میں انتشار کی سیاست کو روکنا مشکل ہو جائے گا۔

متعلقہ تحاریر