اسلام آباد ہائی کورٹ کا عمران خان کو ملنے والے تحائف پبلک کرنے کا حکم
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کا اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ بیرون ملک سے ملے تحائف کوئی گھر لے گیا ہے تو واپس لیں، گزشتہ بیس سال کے تحائف کو بے شک اسی طرح دیکھ لیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم عمران خان کو ملنے والے تحائف کی تفصیلات منظرعام پر لانے کا حکم دے دیا۔
سابق وزیراعظم عمران خان کو ملنے والے توشہ خانہ تحائف کا معاملہ ، اسلام آباد ہائی کورٹ نے تمام تحائف کو پبلک کرنے کا حکم دیا دیا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے وفاقی حکومت کی جانب سے دائر درخواست پر ، جس میں حکومت کا موقف تھا کہ سابق وزیراعظم عمران خان کو ملنے والے تحائف کی تفصیل عام نہیں کی جاسکتی ہیں ، اور نہ درخواست گزار کو دی جاسکتی ہیں ۔
آج کیس کی سماعت کرتے ہوئے اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ نئی وفاقی حکومت آئی ہے اور نئی وفاقی حکومت نے یہ معاملہ وزیراعظم شہباز شریف کے ساتھ اٹھایا ہے، اور اس حوالے سے نئی پالیسی ترتیب دی جارہی ہے۔
یہ بھی پڑھیے
سب گھروں کو چلے گئے، قسمت کے دھنی عثمان بزدار آج بھی وزیراعلیٰ پنجاب
قومی و صوبائی اسمبلیوں کی حلقہ بندیاں 3 اگست تک مکمل ہونگی
اس موقع پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ تحائف کو پبلک کرنے کے حوالے سے اگر کوئی اسٹے آرڈر نہیں ہے ، چونکہ اسٹے آرڈر نہیں ہے اس لیے سابق وزیراعظم عمران خان کو ملنے والے تحائف کی تفصیل پبلک کردی جائے ۔ اور گذشتہ بیس سالوں کے درمیان جو تحائف ملے ہیں ان کو پبلک کردیا جائے۔
یہ حکم اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم عمران خان کو توشہ خانہ سے ملنے والے تحائف کی معلومات دینے سے روکنے کی درخواست کی سماعت کے بعد دیا۔
عدالت نے کہا کہ پاکستان انفارمیشن کمیشن کے آرڈر پر حکم امتناع نہیں، کابینہ ڈویژن معلومات فراہم کرنے کا پابند ہے، رخواست گزار جس نے معلومات مانگی ہے اس کو فراہم کی جائے۔
اس موقع پر رانا عابد نذیر ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ تحائف کی معلومات شیئر کیں تو دیگر ممالک سے تعلقات متاثر ہوں گے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کا اپنے ریمارکس میں کہنا تھا کہ بیرون ملک سے ملے تحائف کوئی گھر لے گیا ہے تو واپس لیں، گزشتہ بیس سال کے تحائف کو بے شک اسی طرح دیکھ لیں ، اگر کوئی آئینی تشریح اس پر کرنی ہے تو ہم کر دیں گے، عدالت نے تحائف کی معلومات فراہم کرنے کے انفارمیشن کمیشن کے حکم پر عملدرآمد کی ہدایت کر دی۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب کا کہنا تھا کہ لوگ آتے اور چلے جاتے ہیں، وزیراعظم آفس وہیں رہتا ہے، جو لوگ تحائف اپنے گھر لے گئے ہیں، ان سے بھی واپس لیں، جو بھی تحفہ دیا جاتا ہے وہ اس آفس کا ہوتا ہے، گھر لے جانے کے لیے نہیں۔
اس موقع پر ڈپٹی اٹارنی جنرل ارشد محمود کیانی کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل اس کیس کو دیکھ رہے تھے اب مستعفی ہو چکے ہیں، نئے اٹارنی تعینات ہونے کے بعد خود کیس کی پیروی کریں یا مجھے کہیں گے، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نئی حکومت سے رابطے میں ہے جو بھی ہدایات ہوں گی اس سے متعلق آگاہ کریں گے۔
عدالت کا اس موقع پر اپنے حکم میں کہنا تھا ایسی پالیسی بنائیں جو آپ پر بھی اور سب کے لیے قابل عمل ہو ، اگر حسن اورنگزیب بیروں ملک جائےمیں بطور جج گیا ہوں بطور حسن اورنگزیب نہیں گیا، ان تحائف کو این سی اے یا کسی پبلک باڈی کو دیں یا عوام جگہوں پر رکھیں، قومی خزانے سے جو تحائف بیرون ملک بھیجے گئے جو لئے گئے تمام کی معلومات ملنی چاہیں، یہ معاملہ ایک آفس سے متعلق ہے کسی انفرادی شخص کے خلاف نہیں۔