کیا سندھ کو گورنر راج کی طرف دھکیلا جا رہا ہے؟

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ سندھ پولیس کے افسران کی احتجاجاً چھٹی کی درخواستیں غیر ضروری عمل تھا

پاکستان میں وفاقی حکومت اور صوبہ سندھ کی حکومتوں کے درمیان کیپٹن محمد صفدر کی گرفتاری کے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال نے نیا رُخ اختیارکر لیا ہے۔ جمعرات کے روز گورنر سندھ عمران اسماعیل اسلام آباد میں وزیراعظم پاکستان عمران خان سے ملاقات کریں گے جس میں صوبہ سندھ میں گورنر راج کے نفاذ سمیت مختلف اُمور پر غور کیا جائے گا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کا حصہ بنے سے لے کر اب تک اس کےلئے نئی مشکلات پیدا ہوئی ہیں۔ حالانکہ گورنر راج لگنے یا وفاق کی جانب سے براہ راست صوبے کے معاملات چلانے کی باتیں پہلے بھی زبان زد عام ہوئی تھیں لیکن اس بار معاملات دوسری نہج پر جاتے نظر آرہے ہیں۔

اس نئی صورتحال کا آغاز اس وقت ہوا، جب گذشتہ دنوں پی ڈی ایم کے جلسے میں شرکت کرنے مریم نواز شریف اپنے پارٹی ارکان کے ہمراہ کراچی آئیں اور اسی دن انہوں نے اپنے خاوند کیپٹن ریٹائرڈ صفدر اور کارکنان کے ہمراہ مزار قائد پر حاضری دی، جہاں ان کے شوہر نے مزار قائد کے احاطے میں کھڑے ہوکر ووٹ کو عزت دو کے ساتھ پاکستان مسلم لیگ نواز کے نعرے بھی لگوائے۔ جس کے بعد شام تک ان کے خلاف وقاص نامی ایک شخص کی مدعیت میں ایک ایف آئی آر درج کی گئی، جس کے بعد صبح سویرے جب مریم نواز شریف اور ان کے خاوند ہوٹل کے کمرے میں سورہے تھے کہ پولیس نے ان کے ہوٹل کے کمرے کا مبینہ طور پر دروازہ توڑ کر کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو مزار قائد کی بے حرمتی اور کارکنان کے ساتھ ہلڑ بازی کے الزام میں گرفتار کیا۔

معاملہ کپیٹن صفدر کی گرفتاری پر ہی نہیں رکا اور اس وقت مزید پیچیدہ ہوگیا، جب اچانک یہ بات سامنے آئی کہ رات گئے مبینہ طور پر آئی جی سندھ سمیت پولیس کے اعلیٰ افسران کو ان کے گھروں سے اٹھا کر رینجرز ہیڈکوارٹرز لایا گیا، جہاں ان سے زبردستی ایف آئی آر پر عملدرآمد کرنے کو کہا گیا۔ صوبے کے اعلیٰ پولیس افسران سے منسلک یہ خبر پہلے پہل تو متضاد اطلاعات اور تنازعے کی زد میں رہی تاہم شام تک پولیس افسران کی جانب چھٹی کی درخواستوں کے معاملے کو مزید پیچیدہ بنادیا۔ اسی شام پیپلز پارٹی کے چیئرمین کی پریس کانفرنس نے پولیس افسران کو گھر سے اٹھائے جانے والی خبر کی تو ایک طرح سے تصدیق کردی تاہم رات تک معاملات مزید گنجلک ہوگئے۔

اپنی پریس کانفرنس میں بلاول بھٹو نے آرمی چیف اور آئی ایس آئی سے اس معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ بعد ازاں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بلاول بھٹو زرداری سے ٹیلیفون پر رابطے کیا اور معاملے کی تحقیقات کی یقین دہانی کرادی، جس کے بعد رات گئے چھٹی کی درخواست دینے والے تمام افسران نے اپنی چھٹیوں کا معاملہ دس دن تک موخر کیا اور معاملے کی تحقیقیات کا مطالبہ کیا۔ اس مطالبے کو ایک طرح سے ریاست کے ایک اہم ادارے کی جانب سے ریاست کو ہی دس دن کے نوٹس سے تعبیر کیا جارہا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا ریاست کا ایک ادارہ اپنے ریاستی ڈھانچے کو کسی بھی معاملے پر کبھی بھی کوئی نوٹس دے سکتا ہے؟ اس حوالے سے جب ہم نے سابق آئی جی اسلام آباد طاہرعالم خان سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ سندھ پولیس نے چھٹیوں کی درخواستیں دے کر ایک طرح سے کمزور احتجاج کیا ہے۔ اگر انہیں احتجاج کرنا ہی تھا تو صرف آئی جی سندھ علامتی طور پر پینشن پر چلے جاتے۔ باقی ان کی چھٹی کی درخواستیں اور دس دن کا نوٹس غیر ضروری ہے جس سے ملک کے اندر اداروں کے درمیان ٹکراؤ کا تاثر گیا ہے۔

دوسری جانب وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے اس پورے معاملے کے حوالے سے پیپلز پارٹی پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ پولیس افسران کے چھٹیوں کے معاملے کے پیچھے پیپلزپارٹی کھڑی ہے۔ شبلی فراز نے اپوزیشن پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ حزب اختلاف والے ملک کے مختلف اداروں کے درمیان تنازعہ چاہتے ہیں اور مزید یہ کہ وہ ملک میں بے چینی کی کیفیت پیدا کر کے اپنے سیاسی فوائد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

ہم نے اس تمام معاملے پر تجزیہ حاصل کرنے کیلئے معروف صحافی عامر ضیاء سے رابطہ کیا تو ان کہنا تھا کہ پاکستان پیپلزپارٹی کی سرکار پولیس کے ادارے کو گذشتہ تیرہ برس سے سیاسی طور پر استعمال کرتی رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس کے افسران کو اپنے ٹاپ آفیسر کا اتنا ہی خیال تھا تو انہوں نے اس وقت کیوں نہیں ایکٹ کیا تھا، جب سندھ سرکار نے آئی جی اے ڈی خواجہ کو گھر بھیج دیا تھا اور اسے بعد میں کورٹ سے بحال ہونا پڑا تھا۔ عامر ضیاء نے مزید کہا کہ آئی جی پولیس کے اغواء کا معاملہ ایک فیبریکیٹڈ کہانی لگتی ہے، جس کا مقصد ریاستی اداروں کو بدنام کرنا تھا۔

سوال یہ ہے کہ وفاقی اور سندھ سرکار کے درمیان طاقت کی اس رسہ کشی کا انجام کیا ہوگا؟ یہ آنے والے دس دنوں میں واضح ہوجائے گا۔

متعلقہ تحاریر